جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ملک میں جمہوریت بچانے کے لیے نکلے ہیں۔ 'آزادی مارچ' کے نتیجے میں مارشل لا لگا تو احتجاج کا رُخ اس کی جانب ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ وہ ریاستی اداروں کے ساتھ براہ راست تصادم نہیں چاہتے۔ حکومت استعفیٰ دے اور نئے شفاف انتخابات کرائے جائیں۔ اسلام آباد پہنچ کر آئندہ کے لائحہ عمل کا فیصلہ کریں گے۔
مولانا فضل الرحمٰن اسلام آباد سے 'وائس آف امریکہ' کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کر رہے تھے۔ انہوں نے اکتوبر کے آخری ہفتے میں حکومت کے خلاف احتجاج کی کال دی ہے۔
وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن سے مذاکرات کے لیے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ماضی میں ایسے حالات پیدا کیے جاتے تھے کہ فوجی جرنیل مارشل لا لگا کر نجات دہندہ بن جاتا تھا لیکن موجودہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کی اپنی مسلط کردہ ہے۔ وہی اس کے ذمے دار ہیں۔
انہوں نے کہا "ہم ریاستی اداروں سے براہ راست تصادم نہیں چاہتے لیکن شکوہ ضرور ہے۔ انتخابی عمل میں ان کی غلط مداخلت سے وجود میں آئی ناجائز حکومت ہمارا ہدف ہے۔"
حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے بارے میں مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ وزرا کا لب و لہجہ اور توہین آمیز رویہ مذاکرات کی خواہش کی عکاسی نہیں کرتا۔ حکومت سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ جب تک ان کی تضحیک کا رویہ برقرار ہے، سنجیدہ گفتگو کیسے ہو سکتی ہے؟ ہمارا بنیادی مطالبہ حکومت کا مستعفی ہونا اور دوبارہ انتخابات ہیں۔ موجودہ صورت حال میں ان سے مذاکرات ممکن نہیں۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات شوکت یوسف زئی نے جے یو آئی (ف) کے باوردی رضاکاروں کے خلاف کارروائی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلح جتھے بنانا آئین اور نیشنل ایکشن پلان کی خلاف ورزی ہے۔
اس بارے میں مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ قائداعظم کی تحریک میں نیشنل گارڈ اجتماع کے انتظامات سنبھالتے تھے۔ جے یو آئی (ف) کے رضاکار انصار الاسلام کے پلیٹ فارم سے ان کے اجتماع کے انتظامات سنبھالتے رہے ہیں۔ وہ اپنی وردی کے ساتھ الیکشن کمیشن میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے پلیٹ فارم سے رجسٹرڈ ہیں۔ منشور میں ان کے فرائض کی وضاحت کی گئی ہے۔ حکمران اس قدر حواس باختہ ہیں کہ جلسوں کے خدام کو بھی دہشت گردوں کی طرح سمجھتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہمارے پُرامن رہنے کے لیے یہ دلیل کافی ہے کہ ہم نے لاکھوں لوگوں کے مارچ کیے۔ کبھی کہیں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ اس بار کچھ ہوا تو حکومت کے اداروں کی جانب سے ہو سکتا ہے۔ ہم قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے احتجاج کریں گے۔
اسلام آباد پہنچنے کے بعد کیا دھرنا بھی ہوگا؟ اس سوال پر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم نے کبھی دھرنے کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ 27 اکتوبر کو پورے ملک میں کشمیریوں کے ساتھ یوم سیاہ مناتے ہوئے یکجہتی کا اعلان کیا ہے جس کے بعد قافلے روانہ ہو جائیں گے اور 31 اکتوبر کو ہم اسلام آباد میں داخل ہو جائیں گے۔ عوام جب جمع ہو جائیں گے تو پھر اگلے اقدامات کا فیصلہ کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں ایک پیج پر آ گئی ہیں اور سب آزادی مارچ کی حمایت کر رہی ہیں۔ ملک کی تمام سیاسی، سماجی اور پیشہ ورانہ تنظیمیں بھی ان کے ساتھ احتجاج ریکارڈ کرائیں گی۔ پوری قوم اس میں شریک ہونے کے لیے آمادہ ہے کیونکہ یہ مارچ بقول ان کے ’نااہل حکومت‘ کے خلاف امید کی کرن ہے۔