کراچی، پاکستان کا کاسموپولیٹن شہر۔ یہاں ہر مذہب، زبان اور منفرد لہجے رکھنے والے لوگ آباد ہیں۔ زبانیں، لہجے اور بولیاں گنتے جایئے گھنٹوں لگ جائیں گے۔
کئی ملکوں اور ان گنت شہروں سے آنے والوں کا مسکن اب یہی شہر ہے۔ صبح سویرے سے رات ڈھلنے تک اور نصف رات کے آنچل سے سورج کی پہلی کرن پھوٹنے تک یہ شہر جاگتا رہتا ہے۔
سیدھے سادھے لب و لہجے اور اپنی ہی چھوٹی سی دنیا میں مگن رہنے والے داؤدی بوہرہ جماعت کے افراد بھی یہیں آباد ہیں۔ ان کی اپنی دنیا دوسروں سے الگ ہے ۔کھانےکے طور طریقے، ذائقے، پہناوے، عبادت گاہیں۔۔۔یہاں تک کہ خواتین کا برقع بھی الگ اور بہت دلکش ہوتا ہے۔ اسے ’ردا‘ کہا جاتاہے۔
یہ دو حصوں پر مشتمل، عام برقع کی طرح کالا نہیں ہوتا بلکہ نت نئے رنگوں کا ہوتا ہے ۔ اس کے ڈیزائن اور کلرز ہی منفرد ہوتے ہیں۔ گلابی، لال، ہرے، نیلے، سنہری اور سب کے سب پھول دار اور خوب صورت میچنگ والی یا کنٹراسٹ رنگوں کی بیلوں یا لیس کے ساتھ بنے ہوئے۔
اس کی بناوٹ اور تراش خراش، سلائی اور کڑھائی بھی عام برقعوں جیسی نہیں ہوتی۔ عام خواتین چہرہ ڈھک کر رکھتی ہیں۔ لیکن، بوہری خواتین چہرے پر حجاب نہیں پہنتیں۔ یہ ردا خاص طور پر درزی ہی سیتے ہیں وہ بھی صرف ایسے علاقوں میں جہاں ان کی اکثریت آباد ہو۔
تصویر کشی کی بوہری جماعت میں اجازت کم ہی ملتی ہے۔ خاص کر خواتین اور عبادت گاہوں کی تصاویر کی اجازت وائس آف امریکہ کے نمائندے کو بھی مشکل سے ملی۔
داؤی بوہرہ جماعت کی خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کے پہناوے بھی الگ اور روایتی ہوتے ہیں۔ مرد ہر وقت سر پر ایک خاص انداز سے بنی، دو یا ایک سنہری رنگوں والی سونے کی چمک جیسی لائنیں پوری ٹوپی کے گرد ’حالہ‘ کئے رہتی ہیں۔ مرد ہمیشہ پاجامہ زیب تن کرتے ہیں وہ بھی سفید رنگ کا۔ قمیص اور شیروانی خاص لباس میں شمار ہوتا ہے۔ عورتین لمبا سا لہنگا زیب تن کرتی ہیں جسے ’گھاگرا‘ کہا جاتا ہے۔
مردوں کے لئے داڑھی رکھنا لازمی ہے۔ اسے منڈوایا نہیں جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی بالغ بوہرہ داڑھی کے بغیر نظر نہیں آتا۔ داڑھی کم عمری میں رکھ لی جاتی ہے۔داڑھی کا کی تراش خراش یا انداز مخصوص قسم کا ہوتا ہے اور یہی انداز انہیں دوسری برادری سے ممتا ز رکھتا ہے۔
لڑکوں یا مذہبی تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کا لباس بھی خاص ہوتا ہے۔ سفید گاؤن، سفید پاجامہ اور سفید ہی شرٹ۔ سر پر وہی مخصوص ٹوپی۔
مرد چمڑے کے جوتے نہیں پہنتے، بلکہ کپڑے یا کینوس کے بنے جوتے پہنتے ہیں۔ چمڑے سے متعلق یہ شک لاحق رہتا ہے کہ نامعلوم وہ کسی مردہ جانور کی کھال سے بنا ہے یا باقاعدہ ذبح کردہ جانور کا۔
برادری دینی عقائد سے جڑی رہتی ہے۔ مسجد یا جماعت خانہ معاشرے میں اہم مقام رکھتا ہے۔ خواتین کو گھروں میں کھانے نہیں پکانا پڑتا بلکہ کھانا جماعت خانے سے لینے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ کھاؤسا، خامن ڈوکلا، پوری چاٹ، نمکو اور سموسے برادری کے روایتی کھانوں میں شمار ہوتے ہیں۔
تینوں وقت کھانا جماعت خانے سے آتا ہے جس کے لئے ماہانہ چندہ لیا جاتا ہے۔ برادری کی’ٹفن سروس‘ بہت مشہور ہے اور دیگر جماعتیں اور لوگ اسے پسندیدگی اور کسی حد تک اپنانے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ یہ عموماً ’گجراتی‘ بولتے ہیں۔
وائس آف امریکہ نے برادری کے مختلف افراد سے گفتگو کے بعد زیر نظر رپورٹ تیار کی ہے جبکہ برادری کی تاریخ، رسم و رواج اور ثقافت سے متعلق کئی کتابوں سے بھی مدد لی گئی ہے۔ ان ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق داؤدی بوہری جماعت کے ارکان جماعت خانے کے گرد یا اس کے قریب اپنے رہائش گاہیں رکھنے کو بہت زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ یہ برادری عقائد پر عمل کرنے کے معاملے میں کبھی کوئی سمجھوتا نہیں کرتے۔ گھر ہو، دکان، مکان، فیکٹری، کارخانہ، جماعت خانہ یا پھر کوئی اور زیر استعمال عمارت اس میں اپنے مذہبی پیشوا کی تصویر لگانا ایک طرح سے ’لازمی‘ خیال کیا جاتا ہے۔
گزشتہ ہفتے کراچی کے تاریخی فرئیرہال میں پہلی بار منفرد ’بوہرہ بازار‘ سجایا گیا جہاں بوہرہ کمیونٹی کی ثقافت اور کھانوں کو بھرپور انداز میں عوام کے لئے پیش کیا گیا۔ اس ایونٹ کو اس قدر پسند کیا گیا کہ بچوں، بڑوں اور خواتین نے بڑی تعداد میں اس میں شرکت کی اور روایتی بوہرہ کھانوں اور دیگر اشیا کابھرپور لطف اٹھایا۔
ایونٹ میں بوہری برادی کی گھریلو صنعتوں کو بھی متعارف کرایا گیا جس میں خواتین کے تیار کردہ مخصوص انداز کے سلائی کڑھائی والے ملبوسات نمائش کے لئے پیش کئے گئے۔
منتظمین میں سے ایک مرتضی نجمی نے میڈیا نمائندوں کو بتایا کہ فیسٹول میں سو سے زائد اسٹال لگائے گئے جن کے ذریعے کمیونٹی کی ثقافتی اور سماجی سرگرمیاں دیکھنے کو ملیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ عام لوگوں کوبھی بوہرہ برادری کے کسی ایونٹ میں شرکت کا موقع اور اسے قریب سے سمجھنے اور دیکھنے کا موقع ملا۔