امریکہ کے ایک فیڈرل جج نے ہفتے کے روز اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ امریکہ کے سابق سیکیورٹی ایڈوائزر جان بولٹن کی ٹرمپ انتظامیہ سے متعلق کتاب کو فروخت کیا جا سکتا ہے۔
اس سے قبل، محکمہ انصاف نے ایک ایمرجینسی اپیل دائر کی تھی جس میں کتاب کی فروخت روکنے کی درخواست کی گئی تھی۔
صدر ٹرمپ کے سابق مشیر کی کتاب منگل کو فروخت کے لیے پیش کی جانی ہے۔ اس کتاب میں خارجہ پالیسی سے متعلق صدر ٹرمپ کے فیصلوں پر نکتہ چینی کی گئی ہے۔ یہ فیصلے ڈیڑھ سال کے اس عرصے کے دوران ہوئے جب وہ وائٹ ہاؤس میں صدر کے مشیر کے طور پر کام کر رہے تھے۔
محکمہ انصاف کا کہنا ہے کہ اس کتاب کی اشاعت سے ان حساس معلومات کے افشا ہونے کا خدشہ ہے جنہیں امریکہ کی سلامتی کے مفاد میں خفیہ رکھنا ضروری ہے۔
لیکن ڈسٹرکٹ جج روئس لیمبرتھ نے فیصلے میں کہا ہے کہ وہ اپنی کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں آگے بڑھ سکتے ہیں، کیونکہ کتاب کی ہزاروں کاپیاں پہلے ہی کتب فروشوں کو بھیجی جا چکی ہے۔
جج نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ایک شخص جس کے ہاتھ میں کتاب ہے اور وہ اس کے لیے سرگرم ہے، وہ کافی شاپ سے بھی اس کا مواد شائع کر سکتا ہے۔ جب کہ اس کتاب کی ہزاروں جلدیں پہلے ہی دنیا بھر میں پہنچ چکی ہیں، وہ بہت سے نیوز رومز میں موجود ہیں۔ اس سے جتنا نقصان ہونا تھا، وہ پہلے ہی ہو چکا ہے، جس کا اب مداوا نہیں کیا جا سکتا۔
جج لیمبرتھ نے اپنے فیصلے میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بولٹن نے امریکہ کی قومی سلامتی کے ساتھ جوا کھیلا ہے۔ اس نے اپنے ملک کو خطرات کے سامنے اور خود کو امکانی طور پر فوجداری نوعیت کی شہری آزادیوں کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے جج لیمبرتھ کے فیصلے پر ٹوئٹ کی ہے جس میں اسے بولٹن کے خلاف اپنی فتح قرار دیا ہے۔
بولٹن نے اس سے انکار کیا ہے کہ ان کی کتاب میں حساس نوعیت کا مواد موجود ہے۔ انہوں نے اپنے موقف کا اعادہ کیا ہے کہ وائٹ ہاؤس کے حکام نے اپریل میں کتاب کے مسودے کی منظوری دے دی تھی۔