افغانستان کے سرکاری نشریاتی ادارے ریڈیو ٹیلی ویژن افغانستان (آر ٹی اے) میں کام کرنے والی دو خواتین صحافیوں کا کہنا ہے انہیں طالبان کام کی اجازت نہیں دے رہے۔
خواتین صحافی سرکاری نشریاتی ادارے آر ٹی اے میں کام کے لیے پہنچیں تو انہیں کہا گیا کہ وہ عمارت میں داخل نہیں ہو سکیں گی۔
گزشتہ اتوار جب سے طالبان نے کابل پر قبضہ کیا ہے، طالبان نے سرکاری ایجنسیز اور سرکاری نشریاتی ادارے کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیو میں آر ٹی اے کی نیوز اینکر شبنم خان داوران کا کہنا ہے کہ مرد ساتھیوں کو تو عمارت میں جانے کی اجازت دی گئی تاہم انہیں واپس بھیج دیا گیا۔
شبنم کا مزید کہنا تھا کہ ان کے پاس کارڈ بھی موجود تھا پھر بھی انہیں اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
شبنم کے بقول انہیں کہا گیا کہ وہ اپنی ڈیوٹی جاری نہیں رکھ سکتیں کیوں کہ حکومت تبدیل ہو گئی ہے۔
آر ٹی اے کی ایک میزبان خدیجہ امین کا نجی نشریاتی ادارے ‘طلوع نیوز’ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ انہیں منگل کو دفتر میں داخل نہیں ہونے دیا گیا اور ان کے بقول بعد ازاں دیگر ساتھیوں کو بھی داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔
خدیجہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے طالبان کی طرف سے تعینات کردہ ڈائریکٹر سے بات کی۔ جن کا کہنا تھا کہ وہ جلد فیصلہ کریں گے کہ آیا وہ کام کر سکتی ہیں یا نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان نے آر ٹی اے کے پروگرامز تبدیل کر دیے ہیں اور اب کوئی بھی خواتین میزبان نہیں ہیں۔
ایک صحافی جو کہ آر ٹی اے کے لیے کام کرتی تھیں، ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی سابقہ ساتھیوں کے لیے پریشان ہیں۔
صحافی کا اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے وائس آف امریکہ سے کہنا تھا کہ بد قسمتی سے وہ طالبان کے دور کی طرف واپس جا رہے ہیں اور وہ اپنے ساتھیوں کے بارے میں بہت فکر مند ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
خیال رہے کہ طالبان کا کابل پر قبضے کے بعد کی جانے والی پہلی پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ خواتین کے حقوق کی شریعت کے مطابق حفاظت کی جائے گی۔
طالبان ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ میڈیا کو آزادی حاصل ہو گی۔
جرمن نشریاتی ادارے ‘ڈی ڈبلیو’ کا کہنا ہے کہ طالبان کے جنگجوؤں نے ان کے ایک صحافی کے رشتے دار کو اس وقت قتل کیا جب وہ اس صحافی کی تلاش میں تھے۔
طالبان کا جرمن ادارے کے صحافی پر حملے اور خواتین کو کام سے روکنے سے متعلق مؤقف سامنے نہیں آیا۔
قبل ازیں طالبان کا کہنا تھا کہ صحافی نجی چینلز میں کام کرنے کے لیے آزاد ہوں گے تاہم ان کے بقول سرکاری نشریاتی ادارے وہ چلائیں گے۔