طالبان کو کابل میں داخل ہوئے ایک روز مکمل ہو چکا ہے۔ اس دوران کابل میں بے یقینی کی کیفیت برقرار رہی۔ وائس آف امریکہ کی نمائندہ کی ویڈیو رپورٹ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کابل کی سڑکوں پر ٹریفک معمول سے انتہائی کم رہا۔ شہر ی گھروں میں بند تھے، تاہم طالبان کی موجودگی مختلف مقامات پر دیکھی جا سکتی تھی۔
وائس آف امریکہ اردو سروس سے فیس بک لائیو پر بات کرتے ہوئے 'وی آن ٹی وی' کے صحافی انس ملک نے کابل میں طالبان کے کنٹرول کے پہلے روز کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے بتایا کہ طالبان ان کے ہوٹل سمیت، جہاں کئی غیر ملکی صحافی بھی مقیم ہیں، کئی میڈیا اداروں میں داخل ہو گئے اور مقامی سیکیورٹی سے اسلحہ لیکر وہاں کا سیکیورٹی چارج سنبھال لیا۔
صحافی کے مطابق، طالبان کا کہنا ہے کہ اب جب کہ ملک کا انتظام ان کے پاس ہے تو ان اداروں کی سیکیورٹی بھی اب ان ہی کی ذمہ داری بنتی ہے۔
صحافی کے مطابق، یونیفارم میں ملبوس سیکیورٹی گارڈز کی بجائے شلوار قمیض اور لمبی داڑھیوں والے اسلحہ بردار طالبان کو پہرہ دیتے دیکھنا ایک مختلف تجربہ ہے۔ اب تک ان جگہوں پر کسی کے ساتھ کوئی برا برتاؤ نہیں کیا گیا۔ لیکن عوام سمیت صحافیوں میں بھی آئندہ کی صورت حال کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔
صحافی کے مطابق، کابل میں طالبان کی آمد کے پہلے روز کابل کا وہ ٹریفک سگنل جس پہ عموماً خاصا رش ہوا کرتا تھا ویران پڑا رہا۔ ایسی ہی صورت حال کابل کے سب سے پر رونق علاقے 'شہر نو' میں بھی نظر آئی جہاں دکانیں اور مال سب ہی بند رہے۔ البتہ شام کے وقت کچھ مقامی افغان ریستوران کھلتے نظر آئے۔
پہلے روز شہر میں صحافی اپنی ذمہ داریاں نبھانے باہر نکلتے رہے لیکن فلم بندی کے لئے انہیں پہلے مقامی طالبان انچارج سے اجازت درکار تھی۔
پاکستانی صحافی کے مطابق، اگست کی 6 تاریخ سے مختلف صوبوں میں طالبان کی پیش قدمی کے ساتھ ہی ملک سے شہریوں کا انخلا شروع ہو گیا تھا۔ ایئرلائنز کی جانب سے کرایوں میں ہوشربا اضافہ کر دیا گیا تھا۔ وہ ٹکٹ جو عام دنوں میں ڈیڑھ سو ڈالرز میں مل جایا کرتا تھا اس کی قیمت ڈیڑھ سے دو ہزار ڈالرز تک پہنچ گئی، اس کے باوجود ٹکٹ خریدنے والوں کو اگست کی تاریخیں نہیں مل پا رہی تھیں۔
جمعے کے روز جب طالبان کی کابل کی جانب پیش قدمی شروع ہوئی تو شہریوں میں پہلے ہی سراسیمگی پھیل چکی تھی اور لوگوں نے بڑی تعداد میں کابل ایئرپورٹ کا رخ کرنا شروع کر دیا تھا۔ لوگ بغیر ویزا اور پاسپورٹ ہی ملک سے باہر نکلنے کی کوششیں کرتے رہے۔ اس دوران شہریوں میں غم و غصہ اور شدید پریشانی کی ملی جلی کیفیت پائی گئی۔
صحافی کے مطابق، مقامی حکام نے انہیں بتایا کہ پیر کی صبح تک بھی ایئرپورٹ پر کم از کم 12 ہزار شہری موجود تھے۔ کابل ایئرپورٹ فی الحال دو روز کے لئے مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے تاکہ ملک سے غیر ملکی سفارتی عملے کو نکالا جا سکے۔
طالبان کی آمد پر سب سے زیادہ خوف خواتین میں پایا جاتا ہے۔ ایک روز پہلے تک شہر کی جن سڑکوں پر خواتین مقامی لباس پہنے معمول کے کام کاج کرتی نظر آ رہی تھیں، طالبان کی آمد کے پہلے روز ہی سڑکوں سے غائب تھیں اور جو اکا دکا خواتین گھروں سے نکلیں وہ کسی محرم کے ساتھ تھیں۔
تعلیمی اداروں کے حوالے سے صحافی نے بتایا کہ کابل میں گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد امتحانات کا سلسلہ ہے اس لئے ابھی یہ واضح طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ یہاں تعلیم بالخصوص خواتین کی تعلیم کی کیا صورت حال ہو گی، تاہم کچھ روز قبل تک ہرات میں طالبان اور افغان کمانڈر اسماعیل خان کی ملیشیا کے درمیان لڑائی کے دوران خواتین کو یونیورسٹی میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔
گو کہ افغانستان کے دارالحکومت کا کنٹرول اب مکمل طور پر طالبان کے ہاتھوں میں ہے، لیکن ابھی تک اقتدار کی باضابطہ منتقلی عمل میں نہیں آئی ہے۔ خود ساختہ جلاوطن افغان صدر اشرف غنی کی غیر موجودگی میں سابق صدر حامد کرزئی، سابق چیف ایکزیکٹیو عبدللہ عبدللہ اور سابق وزیراعظم گلبدین حکمت یار پر مبنی کمیٹی اقتدار کی منتقلی کے معاملات طے کر رہی ہے اور اس پر عملی جامہ طالبان قیادت کی دوحہ سے واپسی پر ہی ممکن ہو گا۔
طالبان کمانڈروں نے اپنی بات چیت میں اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ ملک کا نام امارت اسلامی افغانستان رکھنے کے ساتھ اس کا پرچم بھی تبدیل کرنے کے خواہاں ہیں۔ تاہم، بین الاقوامی برادری اسے قبول کرے گی یا نہیں اس کا اندازہ آنے والے دنوں میں ہی ہو گا۔