|
کوئٹہ — بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کے گرد باڑ کی تنصیب کے منصوبے کی مخالفت اور اس کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔
گوادر میں باڑ لگانے کی مخالفت کے سلسلے میں کوئٹہ میں ہفتے کو پریس کلب میں ‘بلوچ یکجہتی کمیٹی’ نے پریس کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس موقع پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کی چیئر پرسن ماہ رنگ بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت گوادر سٹی سے پشکان تک باڑ لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس مقام پر تقریباً تین فٹ تک کھدائی کی گئی ہے۔
ماہ رنگ بلوچ کے بقول بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اس باڑ کے خلاف تحریک کا آغاز کیا ہے۔
کانفرنس شروع ہونے سے قبل پولیس نے کوئٹہ پریس کلب کے مین گیٹ کو تالے لگا دیے تھے جب کہ پریس کلب کی بجلی بھی بند کر دی گئی تھی۔ اس دوران پریس کلب میں موجود جرنیٹر بھی بند کر دیا گیا تھا اور کانفرنس میں شامل ہونے والے شرکا کو اندر جانے سے روک دیا گیا تھا۔
بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں ایک بار پھر حکومت کی جانب سے باڑ لگانے کی خبریں زیر گردش ہیں۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے گوادر شہر کے چند مخصوص علاقوں کو باڑ لگا کر بند کرنے کا منصوبہ ایک بار پھر شروع ہو گیا ہے جس کے لیے مبینہ طور پر خندق کھودی جا رہی ہے۔
گوادر کے شہریوں اور سیاسی و سماجی حلقوں نے اس سے صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما ساجد ترین ایڈووکیٹ کی جانب سے بلوچستان ہائی کورٹ میں گوادر میں باڑ لگانے سے متعلق آئینی درخواست بھی دائر کی گئی ہے۔
بلوچستان میں حکومتی سطح پر باڑ لگانے کے الزامات کی تردید بھی سامنے آئی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
گوادر بلوچستان کے جنوب مغربی حصے میں واقع ہے۔ یہ شہر مکران ڈویژن کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔
گوادر کی جغرافیائی پوزیشن انتہائی اہم ہے کیوں کہ یہ عمان کی خلیج کے کنارے واقع ہے اور یہ ساحل چین پاکستان اقتصادی راہ داری کا نقطہ آغاز بھی ہے۔
گوادر کے مکینوں کے تحفظات
بالاچ بلوچ گوادر کے رہائشی ہیں، انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گوادر میں دوبارہ حکومت کی جانب سے باڑ لگانے کا کام شروع ہوگیا ہے جس کی وجہ سے ان کے خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔
بالاچ بلوچ گوادرکے علاقے چپ کلمتی میں رہتے ہیں۔
ان کا سب سے بڑا خدشہ ہے کہ باڑ لگانے سے نواحی علاقے گوادر شہر سے کٹ جائیں گے اور ان کو روزانہ آمد و رفت میں مشکلات کا سامنا کرنے پڑے گا۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت کے اس اقدام سے ان کے بچے، بھائی اور دیگر رشتہ داروں کو گوادر شہر کے مرکز میں قائم تعلیمی اداروں تک جانے میں مشکل ہوگی۔
ان کے بقول اسی طرح اسپتال، ضلعی دفاتر، نادرا کا دفتر، میڈیکل اسٹورز، اشیاء خور و نوش کی مارکیٹ اور سب سے بڑھ کر روزگار کا مسئلہ ہوگا۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ حکومت گوادر کے لوگوں کو دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہتی ہے۔ جہاں باڑ لگائی گئی ہے وہاں لوگوں کی زیرِ کاشت زمینیں ہیں۔ ان کو بھی اس صورتِ حال میں مشکلات ہوں گی۔
گوادر سے تعلق رکھنے والے ایک سماجی کارکن نعیم غفور نے بھی وائس آف امریکہ کو کچھ ایسے ہی ویڈیو کلپس ارسال کی ہیں جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ شہر کے گرد خندق کھودی گئی ہے۔
SEE ALSO: گوادر کیوں ڈوبا اور کیا مستقبل میں بھی ڈوبے گا؟نعیم غفور نے الزام عائد کیا ہے کہ جب گوادر کے لوگ سیلاب کے مشکل دور سے گزر رہے تھے تو حکومت کی جانب سے نواحی علاقوں میں ہیوی مشینری کے ذریعے خندق کھودنے کا کام شروع کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ممکنہ طور پر گوادر کے 25 کلو میٹر کے فاصلے پر باڑ لگائی جائے گی۔ باڑ لگانے کے بعد لوگوں کو آمد و رفت کے لیے صرف دو انٹری پوائنٹس ملیں گے۔
ان کے بقول خندقیں ایسی جگہ پر کھودی گئی ہیں جہاں چین نے سرمایہ کاری کی ہے جس میں گوادر پورٹ اور انٹرنیشنل ایئر پورٹ اور دیگر اہم مقامات شامل ہیں۔
بلوچستان میں بین الاقومی تعلقات کے امور کے ماہر اور جامعۂ بلوچستان کے پروفیسر ڈاکٹر دوست بڑیچ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گوادر میں ایک بار پھر حکومت کی جانب سے جو باڑ لگائی جا رہی ہے یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ کسی جگہ پر کینٹ کا علاقہ قائم کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گوادر میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ساحلی شہر میں ہر دو ماہ بعد بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے مہلک حملے ہو رہے ہیں۔ بظاہر تو حکومت پاکستان اور چین اس بات پر مجبور ہے کہ ایسے اقدامات اٹھائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں پاکستان نے گوادر میں چینی باشندوں اور سرمایہ داروں کو سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے جو اقدامات کیے تھے وہ ناکافی تھے۔ شاید حکومت کی نظر میں یہی آخر حل ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ باڑ لگانے سے یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ پاکستان یہ عمل دفاعی طور پر کر رہا ہے۔ لیکن اگر پاکستان نے گوادر میں ایسا کچھ کیا تو بلوچ علیحدگی پسند تحریک چلانے والی تنظیموں کو یہ لگے گا کہ یہ ان کی کامیابی ہے کہ پاکستان باڑ لگانے کی طرف جارہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے بقول یہ ممکن ہے کہ حکومت کے اس عمل سے بلوچستان میں کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی کارروائیوں میں اضافہ ہوگا۔
گوادر کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ باڑ لگانے سے ضلع کے تین تحصیلوں جیونی، پسنی اور اورماڑہ کے مرکزی گوادر شہر سے کٹنے کا خدشہ ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کا تحریک چلانے فیصلہ
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے گوادر شہر پر باڑ لگانے کے منصوبے کی مخالفت کی ہے۔
کمیٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام نو آبادیات کی ایک شکل ہے جس کا مقصد مقامی آبادی کی نقل و حرکت اور آزادیوں کو محدود کرنا اور شہر کو ایک بڑی جیل میں تبدیل کرنا ہے۔
اس سے قبل 12 مئی کو کمیٹی کے زیر اہتمام گوادر میں ایک احتجاجی ریلی بھی نکالی گئی تھی۔
'ہر فورم پر باڑ کی مخالفت کریں گے'
گوادر سے تعلق رکھنے والے ممبر صوبائی اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان نے گزشتہ دنوں گوادر پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ گوادر کو سابقہ ادوار میں باڑ کے اندر کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اُس وقت سیاسی کارکن کے طور پر مخالفت کی اب عوامی نمائندہ کے طور پر مخالفت کریں گے ۔
ان کا کہنا تھا کہ عوام کو گوادر سے متعلق گمراہ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
واضح رہے کہ تین سال قبل بھی سابقہ دور حکومت کی جانب سے گوادر شہر پر باڑ لگانے کہ کوشش کی گئی تھی۔ تاہم اس وقت بھی حکومت کو سخت عوامی درعمل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
بی این پی کے مرکزی رہنما ساجد ترین ایڈووکیٹ نے بلوچستان ہائی کورٹ میں اس عمل کے خلاف پٹیشن دائر کی تھی جس کے بعد باڑ لگانے کے عمل کو روک دیا گیا تھا۔
SEE ALSO: گوادر:پاکستانی فوج کی گاڑیوں پر حملہ، 14 اہلکار ہلاکگزشتہ دنوں بھی بلوچستان ہائی کورٹ میں انہوں نے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ گوادر میں تقریبا ڈیڑھ لاکھ ایکڑ اراضی پر باڑ لگائی جا رہی ہے۔ باڑ لگانے سے وہاں کے رہائشیوں کی احساس محرومی میں اضافہ ہوگا۔
انہوں نے کہا ہے کہ گوادر میں باڑ لگانے کے کام کو فوری روکا جائے۔
گوادر میں باڑ لگانے کہ خبروں پر کوئٹہ کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ کالعدم تنظیموں کا ضرور یہ مقصد ہوگا کہ گوادر میں باڑ نہ لگے۔ یہاں کینٹ نہ بننے اور یہ شہر سیکیورٹی زون میں تبدیل نہ ہو۔ لیکن اس سے یہ عمل رک نہیں سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں ہم نے دیکھا کہ سوئی کے علاقے میں حالات اس سے زیادہ خراب تھے لیکن جب کینٹ بنانے کا فیصلہ ہوا تو اس کو پائے تکمیل تک پہنچا دیا گیا۔
خیال رہے کہ نوشکی واقعے کے بعد صوبائی حکومت نے قومی شاہراہوں پر سیکیورٹی پلان کو از سر نو تشکیل دینے کا فیصلہ کیا جس کے تحت قومی شاہراہوں پر سیکورٹی فورسز کی نئی چیک پوسٹیں بنانے، مسافر کوچز میں سیکیورٹی گارڈز کی تعیناتی اور بسوں میں سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب ضروری قرار دیا گیا۔
بلوچستان حکومت کا کیا مؤقف ہے؟
حکومتِ بلوچستان نے گوادر میں باڑ لگا کر شہری علاقے کو بند کرنے کے تاثر کو مسترد کیا ہے۔
ترجمان حکومت بلوچستان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ گوادر میں باڑ لگانے کا ایسا کوئی منصوبہ زیرِ غور نہیں۔
انہوں نے کہا کہ گوادر شہر کے گرد باڑ لگانے کی افواہوں میں کوئی صداقت نہیں۔
ترجمان حکومت بلوچستان کا مزید کہنا تھا کہ سابق رکن صوبائی اسمبلی اور ایک تنظیم کی جانب سے کیا گیا دعویٰ بے بنیاد ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس سلسلے میں وائس آف امریکہ نے مزید حقائق جاننے کے لیے ڈپٹی کمشنر گوادر سے بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر ان کی جانب سے مؤقف نہیں دیا گیا۔
تاہم گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر باڑ کے حوالے سے زیرِ گردش خبروں کے جواب میں ڈپٹی کمشنر گوادر نے ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ گوادر کو چین کے حوالے کرنے یا شہر کے گرد آہنی باڑ تعمیر کرنے سے متعلق ساری باتیں محض جھوٹ اور پروپیگنڈا ہیں۔
ڈپٹی کمشنر گوادر حمود الرحمان نے مزید کہا تھا کہ یہ پروپیگنڈا بالخصوص اس وقت شروع کیا گیا ہے جب گوادر میں انڈسٹریل ایگری کلچرل پارک کا افتتاح ہوا جب کہ گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ تکمیل کے مراحل کو پہنچ چکا ہے۔
واضح رہے کہ گوادر شہر میں حالیہ ہفتوں میں امن و امان کی صورتِ حال خراب ہوئی ہے۔
رواں سال اپریل میں گوادر میں نامعلوم مسلح افراد نے پاکستان کی فوج کی بم ڈسپوزل ٹیم پر حملہ کیا جس میں دو اہل کار ہلاک اور چار اہل کار زخمی ہوئے تھے۔
رواں ماہ ایک اور واقعے میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے سات مزدروں کو ایک کوارٹر میں فائرنگ کرکے قتل کیا گیا ہے۔