'پاک افغان سرحد کے ساتھ باڑ لگانے کا کام دو سال میں مکمل ہوگا'

فائل

پاکستان کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ پاک افغان سرحد کے ساتھ باڑ لگانے کا کام دو سال میں مکمل ہوگا، جس کا مقصد سرحد کے آرپار منشیات کی اسملگلنگ اور دہشت گردی کی سرگرمیوں کو روکنا ہے۔

جمعرات کو معمول کی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران دفتر خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے پاک افغان سرحد کے ساتھ باڑ لگانے کے معاملے سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ طویل سرحد کے ساتھ باڑ لگانے کا کام آئندہ دو سال میں مکمل کر لیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے کا کام اسلام آباد کی طرف سے سرحد کے آر پار لوگوں اور اشیا کی نقل و حرکت کو منظم کرنے کے ساتھ منشیات کی اسمگلنگ اور دہشت گردی کو روکنے کی کوششوں کا حصہ ہے، جو، ان کے بقول، علاقائی سلامتی اور پاک افغان تعلقات کی بہتری کے لیے اہم ہے۔

پاکستان یکطرفہ طور پر پاک افغان سرحد کے ساتھ باڑ نصب کرنے کو سرحد کے آر پار عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت کو کنٹرول کرنے کا مؤثر طریقہ سمجھتا ہے جبکہ افغانستان اسے پاکستان کی جانب سے ’ڈیورنڈ لائن‘ کے متنازعہ علاقے کو سرحد میں بدلنے کی کوشش قرار دیتا ہے، جبکہ کے پاکستان افغانستان کے ان تحفظات کو مسترد کرتا ہے۔

افغان امور کے تجزیہ کار اے زیڈ ہلالی کا کہنا ہے کہ پاک افغان سرحد کی منظم نگرانی کے کسی بھی مؤثر اقدام سے دہشت گردی کے تدارک میں مدد ملے گی۔

بقول اُن کے، "یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں کمی واقع ہوئی اور میرے خیال میں بارڈر مینجمنٹ دونوں ملکوں کی سلامتی اور ان کے عوام کی بقا کے لیے ضروری ہے اور اس سے مسائل پیدا نہیں ہوں گے، بلکہ حل ہوں گے۔"

پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کےمعاملے پر بعض سماجی و سیاسی حلقے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے آرہے ہیں کہ یہ اقدام سرحد کے آرپار رہنے والے قبائل کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔

تاہم، پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ سرحد آر پار تجارتی سرگرمیوں اور لوگوں کی نقل و حرکت کے لیے ایسے راستوں کے انتظامات کرلیے گئے ہیں جہاں سے لوگ قانونی دستاویزات کے ساتھ نقل و حرکت کر سکتے ہیں۔

پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کے اپنے وطن واپسی کے معاملے سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ اسلام آباد اور کابل 'افغانستان پاکستان ایکشن پلان فار پیس اینڈ سولیڈریٹی' کے لائحہ عمل کے تحت افغان مہاجرین کی جلد اور مکمل واپسی کے لیے ایک منصوبہ وضع کرنے کے لیے ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں۔ ان کے بقول، ’’اس سلسلے میں افغانستان کی مہاجرین اور ان کی واپسی سے متعلق وزارت کے عہدیدار جلد متعلقہ پاکستانی حکام سے مشاورت کے لیے جلد پاکستان کا دورہ کریں گے‘‘۔

واضح رہے کہ پاکستان کی نگران حکومت نے رواں سال جولائی کے آغاز میں پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کے قیام کی مدت میں رواں سال ستمبر کے اواخر تک تین ماہ کی توسیع کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس معاملے کا حتمی فیصلے آئندہ حکومت کرے گی۔

پاکستان میں اندراج شدہ افغان مہاجرین کی تعداد لگ بھگ 13 لاکھ ہے جب کہ بغیر قانونی دستاویزات کے مقیم افغان مہاجرین کی تعداد بھی لاکھوں میں بتائی جاتی ہے۔