پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کا نام عدالتی حکم پر بلیک لسٹ سے نکالے جانے کے باوجود انہیں بیرونِ ملک جانے سے روک دیا گیا ہے۔
قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف جمعے اور ہفتے کی درمیابی شب لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئر پورٹ پہنچے جہاں سے انہیں قطر فضائی کمپنی کی پرواز کے ذریعے براستہ دوحہ، لندن کے لیے روانہ ہونا تھا۔
شہباز شریف کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے آگاہ کیا کہ ان کا نام وزارتِ داخلہ کی جانب سے بلیک لسٹ میں شامل ہے۔ لہذا وہ ملک سے باہر نہیں جا سکتے۔ جس کے جواب میں شہباز شریف کی جانب سے انہیں عدالتی حکم نامہ دکھایا گیا۔
لاہور ہائی کورٹ نے گزشتہ روز شہباز شریف کو آٹھ مئی سے پانچ جولائی تک آٹھ ہفتوں کے لیے بیرونِ ملک جانے کی مشروط اجازت دی تھی۔
علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر ایف آئی اے کی جانب سے شہباز شریف کو روکے جانے کے بعد وہ واپس لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں اپنی رہائش گاہ چلے گئے۔
مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایف آئی اے حکام نے عدالتی احکامات کی توہین کی ہے۔
اُن کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ اِس اقدام کو عدالت میں چیلنج کریں گی۔
اِس صورتِ حال پر وزارتِ داخلہ پاکستان کی جانب سے کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا۔ البتہ ایف آئی اے ذرائع کے مطابق وزارتِ داخلہ نے اپنی فہرست کو اَپ ڈیٹ نہیں کیا۔ جس کے باعث شہباز شریف کا نام تاحال بلیک لسٹ میں شامل ہے۔
شہباز شریف کو طبی بنیادوں پر بیرونِ ملک جانے کی اجازت
لاہور ہائی کورٹ نے شہباز شریف کو گزشتہ روز طبی بنیادوں پر بیرونِ ملک جانے کی اجازت دے دی تھی۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی پر مشتمل ایک رکنی بینچ نے شہباز شریف کا نام بلیک لسٹ سے نکالنے کی درخواست کی سماعت کی۔
عدالت میں وفاقی حکومت کی طرف سے ڈپٹی اٹارنی جنرل رانا عبدالشکور اور درخواست گزار کی طرف سے امجد پرویز ایڈووکیٹ پیش ہوئے تھے۔ جب کہ بعد ازاں عدالت کے طلب کرنے پر شہباز شریف بھی عدالت میں پہنچ گئے تھے۔
سماعت کے دوران جسٹس علی باقر نجفی نے شہباز شریف سے پوچھا تھا کہ کیا آپ اپنے لوگوں کے ساتھ عید نہیں کرنا چاہیں گے؟ اس پر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اپنوں کے ساتھ عید کرنے سے صحت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔
سرکاری وکیل رانا عبدالشکور نے مؤقف اختیار کیا کہ شہباز شریف نے صحت کے میگا پراجیکٹ بنائے ہیں وہ یہاں رہ کر اپنا علاج کرا لیں۔
جسٹس علی باقر نجفی نے سرکاری وکیل سے کہا تھا کہ آپ سے پوچھا تھا کہ شہباز شریف کا نام بلیک لسٹ میں ہے یا نہیں۔ ایسا شخص جس کا نام ای سی ایل میں نہیں وہ شخص تین بار وزیرِ اعلیٰ رہا۔ کیا وہ واپس نہیں آئے گا؟
سرکاری وکیل نے کہا تھا کہ شہباز شریف نے اپنے بھائی نواز شریف کو چار ہفتوں میں واپس لانے کی گارنٹی دی تھی۔ جو شخص گارنٹی دیتا ہے وہ تو عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرنے والا ہے۔ شہباز شریف تو شفاف انداز میں عدالت نہیں آئے۔
دریں اثنا عدالت نے شہباز شریف سے استفسار کیا کہ آپ کو کیا جلدی ہے جو آپ برطانیہ جانا چاہتے ہیں۔
اس پر شہباز شریف نے کہا تھا کہ میں کینسر کے مرض سے بچا ہوا ہوں۔ میں نے لندن میں ڈاکٹر مارٹن سے علاج کرایا اور جنوری 2003 سے انہی سے اپنا طبی معائنہ کرا رہا ہوں۔
عدالت نے شہباز شریف سے پوچھا کہ آپ بیرون ملک ٹیسٹ کے لیے کتنا وقت لیں گے؟ اس پر شہباز شریف نے جواب دیا کہ انہیں آٹھ ہفتے دیے جائیں تو وہ واپس آجائیں گے اور عدالتی حکم کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔
عدالت نے شہباز شریف کی درخواست پر ابتدائی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جو بعد ازاں جاری کر دیا گیا تھا۔
عدالت نے شہباز شریف کو مشروط طور پر بیرون ملک جانے کی اجازت دی اور انہیں آٹھ ہفتوں کے بعد پاکستان واپس آنے کا پابند کیا ہے۔