یمن میں جاری پانچ روزہ جنگ بندی کے باوجود وسطی شہر تعز میں حوثی باغیوں اور مقامی قبائلیوں کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیں جس میں کم از کم 10 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
یمن کے بیشتر علاقوں میں منگل سے شروع ہونے والی جنگ بندی نافذ العمل ہےجس کا مقصد 26 مارچ سے جاری عرب ملکوں کی بمباری اور حوثی باغیوں کے حملوں کے باعث مشکلات کا شکار لاکھوں یمنی شہریوں کو خوراک، پانی، ایندھن، دوائیں اور دیگر امدادی سامان بہم پہنچانا ہے۔
اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ حوثی باغیوں کی پیش قدمی اور عرب ملکوں کی جوابی فضائی کارروائی کے نتیجے میں یمن میں کم از کم تین لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں جب کہ لاکھوں افراد کو خوراک اور بنیادی ضرورت کی اشیا کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
لیکن وسطی شہر تعز کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ جمعے کو مقامی ملیشیا اور حوثی باغیوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جس میں کم از کم 10 افراد مارے گئے ہیں۔
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ دہالیہ شہر میں بھی باغیوں اور قبائلیوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہوگئی ہیں جن میں تاحال کسی ہلاکت کی اطلاع نہیں ملی ہے۔
جنوبی ساحلی شہر عدن کے ایک رہائشی نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ جنگ بندی سے کوئی فرق نہیں پڑا ہے اور شہر بدستور حوثیوں کے قبضے میں ہے جس کے خلاف مقامی افراد مزاحمت کر رہے ہیں۔
دریں اثنا یمن کے سرحدی قبائل نے خبر دی ہے کہ حوثی باغی سعودی عرب اور یمن کے سرحدی علاقے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔
یمن میں اقوامِ متحدہ کی امدادی سرگرمیوں کے نگران نے سعودی عرب کی قیادت میں قائم عرب اتحاد پر زور دیا ہے کہ وہ یمن جانے والے سامان کی سخت جانچ پڑتال میں نرمی کریں تاکہ امدادی سامان کی رسائی تیز کی جاسکے۔
امداد لے جانے والی تمام پروازیں متحدہ عرب امارات سے دارالحکومت صنعا جارہی ہیں جو گزشتہ سال ستمبر سے حوثی باغیوں کے قبضے میں ہے۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ امدادی سامان لے جانے والے بحری جہاز بھی حدیدہ اور عدن کی بندرگاہوں پر لنگر انداز ہوچکے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ صرف جمعے کو حدیدہ اور المکلا کی بندرگاہوں پر امدادی سامان لے کر سات جہاز پہنچے ہیں جن پر ایندھن، گندم اور خوراک کا دیگر سامان لدا ہوا ہے۔
دارالحکومت صنعا میں پیٹرول پمپ بھی جمعرات کی شب سے کھل گئے ہیں جہاں گاڑیوں کی طویل قطاریں لگی ہوئی ہیں۔