افغانستان میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر میڈیا کے 90 سے زیادہ اداروں نے اپنے دفاتر بند کر دیے ہیں، کیونکہ ملک بھر میں صحافیوں کے لیے خطرات بڑھ گئے ہیں۔
افغان عہدے داروں نے بدھ کے روز بتایا کہ میڈیا کے بہت سے دفاتر ان صوبوں میں تھے جہاں طالبان پہنچ چکے ہیں۔
عہدے داروں اور صحافیوں کا کہنا ہے کہ صرف جنوبی صوبے ہلمند میں 12 ریڈیو اور 4 ٹیلی وژن اسٹیشن بند ہوئے ہیں، کیونکہ وہاں کے صدر مقام لشکرگاہ میں شدید لڑائی ہو رہی ہے۔
ہلمند میں 'سکون ریڈیو' کے بانی سیف اللہ زاہدی نے بتایا ہے کہ "لوگ اپنے گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے۔ چنانچہ، حفاظتی اقدام کے طور پر ہم نے دو روز پہلے شہر میں جہاں ریڈیو اسٹیشن واقع ہے، لڑائیوں کا دائرہ پھیلنے پر اپنی نشریات بند کر دیں تھیں۔
زاہدی نے، جو کابل میں قائم ون ٹی وی کے لیے رپورٹنگ بھی کرتے ہیں، وائس آف امریکہ کو بتایا کہ زیادہ تر صحافی اب اپنے گھروں سے کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ رپورٹر کے طور پر مجھ سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ میں موقعہ پر جا کر اپنی رپورٹ بھیجوں، مگر میں یہ نہیں کر سکتا۔ کیونکہ شہر میں لڑائی ہو رہی ہے اور ہر طرف سے گولیاں آ رہی ہیں۔ راکٹ پھٹ رہے ہیں اور فضائی حملے ہو رہے ہیں۔
زاہدی نے بتایا کہ لڑائیوں سے 'سکون ریڈیو' کے دفتر کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ " نقصانات کا اندازہ تقریباً 20 ہزار ڈالر ہے"۔
عزیز احمد شافی ایک فری لانس جرنلسٹ ہیں جو گزشتہ 15 سال سے ہلمند سے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صحافیوں نے اپنی نقل و حرکت محدود کر دی ہے۔ وہ طالبان کے ساتھ رابطہ کیے بغیر صوبے کے دوسرے اضلاع کا سفر نہیں کر سکتے۔
انہوں نے بتایا کہ " طالبان نے ہمیں کہا ہے کہ اگر ہم کہیں جانا چاہتے ہیں تو ان سے رابطہ کریں"۔
SEE ALSO: افغانستان میں آزاد صحافت کا دائرہ سکڑنے لگا، کئی چینلز پر کنٹرول، متعدد صحافی علاقے چھوڑ گئےانہوں نے مزید بتایا کہ اس مہینے کے شروع میں دو صحافی شہر چھوڑ کر جانا چاہتے تھے، لیکن طالبان نے انہیں پکڑ لیا۔
"خوش قسمتی سے جب ہم نے طالبان سے رابطہ کیا تو انہوں نے صحافیوں کو چھوڑ دیا"۔
غرغبنٹ ٹی وی کے ایک صحافی نعمت اللہ ہمت ابھی تک طالبان کی قید میں ہیں۔ انہیں طالبان نے 9 اگست کو لشکرگاہ میں ان کے گھر سے پکڑا تھا۔
شافی کا کہنا تھا کہ ان کے کئی صحافی ساتھی طالبان سے رابطے میں ہیں اور ان کی رہائی کی کوششیں کر رہے ہیں۔
شافی نے اس توقع کا اظہار کیا کہ اگر اللہ نے چاہا تو وہ جلد رہا ہو جائیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کابل کی حکومت نے بھی صحافیوں کو حراست میں رکھا ہوا ہے۔ حکام نے پراپیگنڈا کرنے کے الزام پر چار صحافیوں کو اس کے بعد پکڑا جب انہوں نے قندھار کے ضلع سپین بولدک میں جا کر طالبان کے انٹرویو کیے تھے۔
وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے حکومت کے اس انتباہ کو نظر انداز کر دیا تھا کہ وہ اس علاقے کا سفر نہ کریں۔
بڑھتے ہوئے خطرات نے مزید صحافیوں کو پیر کے روز اس وقت اپنے گھروں تک محدود کر دیا جب ایک ریڈیو منیجر طوفان عماری، جو ایک پراسیکیوٹر کے طور پر بھی کام کرتے تھے، کابل میں ہلاک کر دیے گئے۔
عماری گزشتہ تین مہینوں میں افغانستان میں ہلاک کیے جانے والے چوتھے صحافی ہیں۔
ابھی تک کسی گروپ نے اس ہلاکت کی ذمہ داری قبول نہیں کی، جب کہ افغان عہدے دار اس کا الزام طالبان پر لگا رہے ہیں۔
SEE ALSO: افغان جنگ کے موضوع پر بننے والی ہالی وڈ کی 10 بڑی فلمیںطالبان نے ابھی تک عماری کی ہلاکت پر کوئی بیان نہیں دیا، لیکن اس گروپ نے 6 اگست کو ایک مسجد کے باہر ایک حکومتی ترجمان دوا خان مینہ پال کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
حکومت کے لیے کام کرنے سے قبل مینہ پال ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی کی افغان سروس کے لیے ایک رپورٹر کے طور پر کام کرتے تھے، جہاں انہیں اپنی بہادری پر ایک ایوارڈ بھی ملا تھا۔
افغانستان کی وزارت اطلاعات و ثقافت کے نائب وزیر شیوائی شارق نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ملک میں جاری لڑائیوں اور خطرات کے باعث 46 صحافی دوسرے صوبوں سے کابل آ گئے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کم ازکم دس صوبوں سے مزید صحافیوں کو کابل لانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
شارق کا کہنا تھا کہ" ہم انہیں کابل منتقل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم ان کی مالی مدد بھی کریں گے"۔
افغانستان میں صحافیوں پر مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں گزشتہ ہفتے وزارت اطلاعات و ثقافت نے بتایا تھا کہ میڈیا کے لیے کام کرنے والے ایک ہزار سے زیادہ افراد جن میں 15 خواتین بھی شامل ہیں، بڑھتے ہوئے تشدد کے باعث اپنا روزگار کھو چکے ہیں۔
میڈیا کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ این اے آئی کے سربراہ مجب خلوت گر نے موجودہ صورت حال کو ملک کے میڈیا کے لیے انتہائی سنگین قرار دیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی لڑائیاں اور طالبان کی پیش قدمی گزشتہ 20 برسوں میں حاصل ہونے والی اہم کامیابیوں میں سے ہر ایک کو ملیا میٹ کر سکتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے صحافیوں کو دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ میڈیا کے دفاتر بند ہو رہے ہیں۔ ہم بدترین مالی حالات سے گزر رہے ہیں، اور خبروں تک ہماری رسائی محدود ہو چکی ہے۔
امریکہ اور برطانیہ کے خبروں کے اداروں اور صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے افغانستان کے صحافیوں کے تحفظ اور ان کی بیرونِ ملک دوبارہ آبادکاری کے لیے فوری اقدامات کرنے پر زور دیا ہے۔
میڈیا کے نگران ادارے "رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز" نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ملک کے ایک بڑے حصے پر طالبان کا کنٹرول آزاد صحافت کے لیے ایک ایسا خطرہ ہے جس کی اس سے قبل کوئی نظیر موجود نہیں ہے۔
ایک افغان صحافی خلوت گر کا کہنا ہے کہ میڈیا کسی بھی ملک میں آزاد مبصرین کا کردار نبھاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ " صحافی آزاد افراد ہوتے ہیں۔ ہم طالبان سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ جنگ کے قوانین اور اپنے قائدین کے وعدوں کا پاس کریں"۔