افغان حکام کا کہنا ہے کہ ملک کے مشرقی شہر جلال آباد میں منگل کے روز تین خاتون صحافیوں کو گولیاں مار کے ہلاک کر دیا گیا۔ افغانستان کے شہری علاقوں میں پروفیشنل ورکرز پر حالیہ دنوں میں ہونے والے حملوں کی وجہ سے ملک میں خوف کی فضا قائم ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز نے مقامی ٹیلی وژن سٹیشن انعکاس ٹی وی کے ہیڈ آف لوکل براڈکاسٹر زلمے لطیفی نے بتایا کہ ان تینوں خواتین نے حال ہی میں گریجویشن کی تھی ۔ ان کی عمریں 18 سے 20 سال کے درمیان تھیں اور یہ سٹیشن کے ڈبنگ ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتی تھیں۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ قتل ہونے والی تینوں خواتین کام ختم ہونے کے بعد اپنے گھروں کو جا رہی تھیں کہ عینی شاہدین کے مطابق ایک مسلح شخص انہیں سروں پر گولی مار کر فرار ہو گیا۔ چوتھی خاتون اس واقعہ میں زخمی ہو گئی اور اسپتال کے ترجمان کے مطابق ان کی حالت ابھی خطرے سے باہر نہیں ہے۔
پولیس چیف جمعہ گل ہمت کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں کا مبینہ سرغنہ گرفتار کر لیا گیا ہے اور اس کا تعلق طالبان سے ہے۔ طالبان کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں۔
افغانستان میں حالیہ مہینوں میں فائرنگ اور دھماکوں کے واقعات میں کئی صحافی، سول سوسائیٹی کے کارکن اور درمیانے درجے کے سرکاری ملازمین ہلاک ہوئے ہیں۔
افغان حکومت اور بعض بیرونی طاقتوں کا خیال ہے کہ ان حملوں کے ذمہ دار طالبان ہیں۔ طالبان ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ ملک کے مشرقی صوبے ننگرہار میں داعش کا اثر و رسوخ ہے، جلال آباد اس صوبے کا دارالحکومت ہے۔
افغان میڈیا ایڈووکیسی گروپ نئی کے سربراہ مجیب خلوت گر کا کہنا تھا کہ ’’صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے صحافی برادری میں خوف کی فضا ہے۔ اس وجہ سے وہ سیلف سنسرشپ، صحافت چھوڑنے یا بعض موقعوں پر ملک چھوڑنے پر بھی مجبور ہو جاتے ہیں۔‘‘
کابل میں امریکی سفارت خانے نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا ہے ’’ایسے حملے خوف پیدا کرنے کے لیے ہیں۔ صحافیوں کو جھکنے پر مجبور کرنے کے لیے ہیں۔ اس کے ذمہ دار چاہتے ہیں کہ ایسے ملک میں جہاں میڈیا پچھلے 20 برسوں میں پھیلا ہے وہاں آزادیِ اظہار کر ختم کیا جائے، یہ کبھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘‘
مقامی افغان ٹی وی انعکاس کا کہنا ہے کہ 2018 میں شروع ہونے والے چینل میں 10 خواتین کام کرتی تھیں، مگر ان میں سے 4 قتل ہو چکی ہیں جن میں ملالہ میوند بھی شامل ہیں۔ انہیں پچھلے برس ان کے ڈرائیور سمیت گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ قطر کے دارلحکومت دوحہ میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان امن مذاکرات جاری ہیں۔ جب کہ نئی امریکی انتظامیہ امن مذاکرات اور افواج کی واپسی جیسے معاملات پر نظر ثانی کر رہی ہے۔