پاکستان کے نوبیل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کی زندگی اور ان کی کامیابیوں پر بننے والی ایک دستاویزی فلم ’سلام’ کی اس ہفتے واشنگٹن ڈی سی میں قائم جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں نمائش کی گئی۔
فلم ’سلام‘، ڈاکٹر عبدالسلام کی غیر معمولی صلاحیتوں اور ان کی زندگی میں ہونے والے کچھ ایسے غیر معمولی واقعات کو اجاگر کرتی ہے جن سے عموماً دنیا بھر میں اور خصوصاً پاکستان میں لوگ واقف نہیں ہیں۔
مذہب اور سائنس کو زندگی میں اہم ترین مقام دینے والے ڈاکٹر عبدالسلام، پاکستان کے شہر جھنگ کے ایک عام گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ریاضی کے شعبے میں ماسٹرز کی ڈگری لینے کے بعد اسی سال انہیں ایک سکالرشپ ملا جس کے باعث وہ ڈاکریٹ کے لیے لندن چلے گئے، جہاں انہوں نے فزکس اور ریاضی کے شعبے میں اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔
پاکستان واپس آ کر وہ لاہور کے گورنمنٹ کالج میں کچھ عرصے تدریس کے شعبے سے منسلک رہے۔ تاہم، پاکستان میں آئینی طور پر احمدی فرقے کو غیر مسلم قرار دیے جانے پر جب انہیں ’انٹلیکچوئل آئسولیشن‘ یا تعلیمی اور دانش کے لحاظ سے تنہائی کا سامنا ہوا تو انہوں نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور لندن منتقل ہو گئے۔ انیس سو انہتر میں وہ پہلے پاکستانی اور چوتھے جنوبی ایشیائی شخص تھے جنہین سائنس میں نوبیل انعام سے نوازا گیا۔
ڈاکٹر عبدالسلام کا انتقال 1996ء میں ہوا۔ ان کی خواہش پر اُنہیں ان کے آبائی ملک پاکستان میں دفنایا گیا۔ فزکس کے شعبے میں حیرت انگیز مفروضے پیش کر کے نوبیل انعام حاصل کرنے والے پاکستانی ڈاکٹر عبدالسلام کو بین الاقوامی سطح پر سراہا جاتا ہے۔ لیکن، احمدی فرقے سے تعلق رکھنے کی بنا پر پاکستان میں نا تو ان کی خدمات کا کبھی اعتراف کیا گیا ناہی آج تک ان کا ذکر پاکستان کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔
یہی نہیں، سابق پاکستانی حکومت کے احکامات پر ربوہ میں موجود ان کی قبر پر لگے کتبے پر لکھی’نوبیل انعام حاصل کرنے والے پہلے مسلمان شخص‘ کی تحریر میں سے لفظ مسلمان کو سفید پینٹ استعمال کرتے ہوئے مٹا دیا گیا۔
بھارتی نژاد امریکی فلم میکر، آنند کملاکر کی ہدایتکاری اور دو پاکستانی نوجوانوں ذاکر تھاور اور عمر ونڈل کی تحقیق پر مبنی اس فلم کی کہانی ڈاکٹر عبدالسلام کی کامیابیوں کے ساتھ ان کی زندگی کے اسی المیے کو بیان کرتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اس فلم کے پروڈیوسر اور تحقیق کار ذاکر تھاور نے بتایا کہ 1996ء میں ڈاکٹر عبدالسلام کی وفات پر ایک تعزیتی مضمون پڑھنے سے ان کی کہانی کو فلم کی شکل میں لانے کا خیال ان کے ذہن میں آیا۔ تاہم، عملی طور پر یہ فلم 2004ء میں شروع ہوئی۔ لیکن، سب سے بڑا چیلنج اس کے لیے پیسے اکھٹا کرنا تھا۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’ہم سائنس کے طالبعلم ہیں۔ پروفیشنل فلم میکر نہیں ہیں۔ ہم نے کام شروع کیا 2004ء میں۔ ان دنوں جب آپ لوگوں سے کہتے تھے کہ ہم ڈاکٹر سلام پر فلم بنا رہے ہیں، لوگ سمجھتے تھے کہ ہم اے کیو خان کی بات کر رہے ہیں۔ دوسرا یہ کہ سلام احمدی تھے تو لوگ پیسے نہیں دیتے تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ رقم اکٹھی ہوئی اور یہ کہنا درست ہے کہ یہ لوگوں کے پیسے سے بنائی ہوئی دستاویزی فلم ہے‘‘۔
سلام فلم کا زیادہ تر حصہ ڈاکٹر عبدالسلام کی زندگی، ان کا بچپن، تعلیمی اور تدریسی کیرئیر، اور نوبیل انعام حاصل کرنے سے متعلق تاریخی تصاویر اور فوٹیج پر مبنی ہے۔
فلم کے تحقیق کار اور پروڈیوسر عمر وندل کہتے ہیں کہ اس مواد کو اکھٹا کرنے میں چودہ سال لگے۔ ’انیس سو چھیانوے میں، ڈاکٹر عبدالسلام کی وفات کے بعد میں نے اور ذاکر نے تحقیق شروع کی۔ دنیا بھر سے ہم نے تصاویر، آڈیو، ویڈیو مواد ڈھونڈا۔ ڈاکٹر عبدالسلام کے خاندان اور ان کے ساتھ کام کرنے والوں سے تعلق بنایا اور پھر کہیں جا کر یہ تمام مواد اکھٹا ہوا تاکہ اسے فلم کی شکل دی جا سکے۔
فلم کے ہدایتکار آنند کملاکر کے نزدیک عبدالسلام کی شخصیت اور ان کی کہانی حیرت انگیز اور متاثر کن ہے۔ اُن کے الفاظ میں ’’ہم نے اس فلم سے یہی پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ عدم برداشت اور تعصب ایک مجرمانہ فعل ہے کیونکہ اس سے کسی بھی ملک اور اس کی نوجوان نسل کو وہ نقصان پہنچتا ہے جس کا ازالہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
سلام فلم واشنگٹن ڈی سی میں ایک ایسے دن لوگوں کے لیے پیش کی گئی جب ایک طرف پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں اس آئینی ترمیم کو 44 سال مکمل ہوئے جس کے تحت سات ستمبر 1974ء کو پاکستان میں رہنے والے احمدی فرقے کے افراد کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا اور دوسری طرف رواں سال سات ستمبر ہی کے دن تحریک انصاف کی حکومت نے پرنسٹن یونیورسٹی کے معاشیات کے پروفیسر اور احمدی جماعت سے تعلق رکھنے والے عاطف میاں کو پاکستان کی معاشی مشاورتی کونسل سے مذہبی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید اور دباؤ کے بعد نکال دیا ہے۔ منتظمین کے مطابق، اگرچہ اس فلم کی پیشکش وقت کی ضرورت ہے۔ لیکن، یہ محض اتفاق تھا کہ فلم اس روز پیش کی گئی۔
فلم کو دیکھنے پاکستانی نژاد امریکیوں کی ایک بڑی تعداد طوفانی بارش کے باوجود جارج واشنگٹن یونیورسٹی پہنچی۔ فلم بینوں نے جہاں ایک طرف فلم بنانے والوں کی محنت اور لگن، اور ڈاکٹر عبدالسلام کی کامیابیوں اور شخصیت کو سراہا وہیں پاکستان میں عاطف میاں کی برطرفی اور احمدیوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کی مذمت بھی کی۔ ورلڈ بنک سے منسلک پاکستانی امریکن، حنا سلیم نے کہا ’’پاکستان کے مالی حالات اس وقت جس نہج پر ہیں، عاطف میان ملک کو اس سے نمٹنے کے لیے ایک کارآمد راستے کی جانب لے جا سکتے تھے۔ عمران خان نے اُنہیں برطرف کر کے لوگوں سے چندہ مانگ لیا ہے۔ یہ حکمت عملی نہیں ہے۔‘‘
حاضرین میں موجود ایک اور شخص عطا خان نے کہا ہے کہ ’’چار دہائیاں قبل پاکستان نے ڈاکٹر عبدالسلام کو کھو دیا۔ ان کی صلاحیتوں کو دنیا نے استعمال کیا۔ چار دہائیوں بعد عاطف میاں کو کھو کر عمران خان نے پاکستان کی ترقی کو محدود کرنے کی اسی روایت کو دہرایا ہے‘‘۔
حماد احمد، احمدی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں اور احمدی عبادت گاہ کے امام ہیں۔ وہ بھی یہ فلم دیکھنے پہنچے تھے۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے ڈاکٹر عبدالسلام کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو فلم میں دکھائے جانے کو سراہا۔ تاہم، عاطف میاں کی برطرفی پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ پاکستان کے سیاسی معاملات ہیں۔ مذہبی انسان ہونے کے ناطے میں پاکستان کے اس فیصلے میں دخل نہیں دینا چاہتا۔ لیکن اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ ملک کی خدمت کرنے کےلیے مذہب کی بنیاد پر فیصلے کیے جائیں‘‘۔
سلام فلم، اس ہفتے شروع ہونے والے واشنگٹن ڈی سی ساؤتھ ایشین فلم فیسٹیول کی پہلی پیشکش ہے۔ اس فیسٹیول میں پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کی فلمیں پیش کی جائیں گی۔ تاہم، حاضرین میں موجود کچھ افراد نے اس بات پر تعجب اور افسوس کا اظہار بھی کیا کہ اس فلم کو فیسٹیول کے باقاعدہ آغاز سے ایک دن پہلے ایک الگ تھلگ جگہ پر پیش کیا گیا جہاں لوگوں کی ایک محدود تعداد اس کو دیکھنے آئی۔
کچھ افراد نے اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا کہ بین الاقوامی سطح پر شہرت پانے والے پاکستانی ڈاکٹر عبدالسلام کی زندگی پر پاکستانیوں کی طرف سے بنائی گئی اس فلم کو سراہنے کے لیے پاکستانی سفارت خانے سے کوئی شخص موجود نہیں تھا۔ تاہم، منتظمین کا کہنا ہے کہ اس فلم کو الگ پیش کرنے کی وجہ یہ تھی کہ فلم کے بعد حاضرین کے لیے فلم کے پروڈیوسرز اور ہدائتکار کے ساتھ سوال و جواب کی ایک نشست رکھی جا سکے، تاکہ لوگ اپنے تاثرات کا کھل کر اظہار کر سکیں۔