سوات میں سفارت کاروں کے قافلے پر حملہ، ٹی ٹی پی کا اظہارِ لاتعلقی

  • انسدادِ دہشت گردی پولیس (سی ٹی ڈی) نے واقعے کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا ہے۔ تاہم کسی کو حراست میں نہیں لیا گیا۔
  • کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) نے واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔
  • اتوار کو غیر ملکی سفارت کاروں کا ایک گروپ سوات اور مالم جبہ سے اسلام آباد آ رہا تھا۔

پشاور -- پاکستان کے صوبہ خیبرپختوںخوا کے علاقے سوات میں اتوار کو سفارت کاروں کے قافلے پر ہونے والے حملے کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ واقعے میں ایک سیکیورٹی اہلکار ہلاک جب کہ چار زخمی ہو گئے تھے۔ تمام سفارت کار اس حملے میں محفوظ رہے تھے۔

تاحال کسی بھی گروپ نے حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی، کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) نے واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔

انسدادِ دہشت گردی پولیس (سی ٹی ڈی) نے واقعے کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا ہے۔ تاہم کسی کو حراست میں نہیں لیا گیا۔

خیال رہے کہ اتوار کو غیر ملکی سفارت کاروں کا ایک گروپ سوات اور مالم جبہ سے اسلام آباد آ رہا تھا، اس دوران جہان آباد کے قریب قافلے کے آگے چلنے والی سیکیورٹی وین بارودی سرنگ کی زد میں آنے سے ایک سیکیورٹی اہلکار ہلاک اور چار زخمی ہو گئے تھے۔

سوات کے علاقے مالم جبہ کا شمار ملک کے بڑے تفریحی مقامات میں ہوتا ہے۔ جہاں ہر سال ہزاروں سیاح آتے ہیں۔

اتوار کو انڈونیشیا، زمبابوے، ویتنام، ایران، پرتگال، قازقستان، بوسنیا، ازبکستان، روانڈا، تاجکستان اور روس کے سفیر شامل تھے۔

واقعہ کا مقدمہ انچارج پولیس چوکی تلیگرام سب انسپکٹر جان محمد کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے۔

کالعدم شدت پسند تنظیم کے لاتعلقی کے اعلان کے بعد اس واقعے کی وجوہات اور محرکات پر مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔

سابق سیکریٹری داخلہ اور آئی جی اختر علی شاہ کہتے ہیں کہ 2005 اور 2006 میں سوات میں ابتداً ایسے حملے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت شروع ہوئے تھے۔

اختر علی شاہ کہتے ہیں کہ 2004 میں سوات میں ایک واقعہ پیش آیا تھا جب مٹہ میں بینک ڈکیتی کی کوشش کو ناکام بنا کر پانچ افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔ گرفتار ہونے والوں نے اپنا تعلق جیشِ محمد سے بتایا تھا جو القاعدہ کی اتحادی تھی۔

دورانِ تفتیش ان افراد نے بتایا تھا کہ ان کا ہدف مالم جبہ اور سوات آنے والے سفارت کار اور غیر ملکی ہیں، تاکہ پاکستان کا نام بدنام ہو سکے۔

وائس آف امریکہ پشتو سروس کے فیاض ظفر کہتے ہیں کہ غیر ملکی سفارت کاروں کے دورے کو انتہائی خفیہ رکھا گیا تھا اور اس کی خبر صرف مقامی پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کو تھی۔

اُن کا کہنا تھا کہ واقعے کے بعد اس خبر کو چھپانے کی کوشش کی گئی تھی، لیکن غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں یہ خبر نشر ہوئی تو پھر مقامی میڈیا نے بھی اسے رپورٹ کیا۔