سندھ کے ضلع گھوٹکی میں صحافی کے قتل پر صحافی کمیونٹی کا احتجاج مقامی اخبار سے وابستہ صحافی کو 21 مئی کو نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر زخمی کر دیا تھا۔ نصراللہ گڈانی جمعے کو انتقال کر گئے تھے۔ نصراللہ گڈانی کے لواحقین نے واقعے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ پولیس حکام کے مطابق بہت جلد ملزمان کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ |
اسلام آباد -- پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع گھوٹکی میں صحافی نصراللہ گڈانی کے قتل پر صحافتی کمیونٹی میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ پولیس نے واقعے کے آٹھ روز بعد قتل کا مقدمہ درج کر لیا ہے جس میں کسی کا نام لیے بغیر سرداروں، وڈیروں، بااثر افراد اور کمداروں پر دو نامعلوم مسلح افراد کے ذریعے قتل کرانے کا الزام لگایا گیا ہے۔
صحافی نصراللہ گڈانی 21 مئی کو نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے شدید زخمی ہو گئے تھے۔ انہیں پہلے میرپور ماتھیلو اسپتال لایا گیا جہاں سے ان کو رحیم یارخان کے شیخ زید اسپتال ریفر کر دیا گیا۔ بعدازاں اُنہیں ایئر ایمبولینس کے ذریعے کراچی کے ایک بڑے نجی اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ جمعے کو انتقال کر گئے تھے۔
نصراللہ گڈانی مقامی روزنامہ 'عوامی اواز' سے منسلک تھے جب کہ سوشل میڈیا پر بھی خاصے متحرک تھے۔
ایف آئی آر میں مزید کیا ہے؟
صحافی نصراللہ گڈانی کی والدہ مسمات پٹھانی کی درخواست پر گھوٹکی ضلع کے میرپور ماتھیلو تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا ہے جس میں قتل کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔
مدعی مقدمہ کے مطابق نصراللہ گڈانی جن کی عمر 40 سے 41 سال تھی۔ سوشل میڈیا پر متحرک ہونے کے ساتھ ساتھ 'عوامی آواز' سے بھی منسلک تھے۔ نصراللہ گڈانی عوامی مسائل، قبضہ مافیا، بھتہ خوری سمیت دیگر سماجی برائیوں پر آواز بلند کرتے تھے جس پر علاقے کے وڈیرے اور دیگر بااثر شخصیات اُن سے نالاں تھیں۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ 21 مئی کو دن 11 بجے دو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے نصراللہ گڈانی کو یہ کہہ کر گولیاں مار دیں کہ تم ہر وقت وڈیروں، سیاست دانوں، بھوتاروں کے خلاف بولتے ہو ہم آج تمہیں مار دیں گے۔
سندھ کا ضلع گھوٹکی وڈیروں اور سرداروں کے اثر روسوخ کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔
نصراللہ گڈانی کے قتل کے بعد سندھ بھر کے چھوٹے بڑے شہروں میں مسلسل چھ روز سے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے صحافی، سول سوسائٹی اور سیاسی ورکرز کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ مگر پولیس تاحال ملزمان گرفتار نہیں کر سکی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایس ایس پی گھوٹکی سمیر نور چنا کا کہنا ہے کہ نصراللہ گڈانی کے قتل کا مقدمہ درج ہونے میں تاخیر کی وجہ پولیس نہیں ہے۔ پولیس تو ورثا اور صحافتی تنظیموں کے رہنماؤں کو مسلسل کیس درج کرانے کے لیے کہہ رہی تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پولیس اپنا کام کر رہی ہے اور بہت جلد ملزمان کو گرفتار کر لیا جائے گا۔
نصراللہ گڈانی کے دوست کیا کہتے ہیں؟
قتل ہونے والے صحافی نصراللہ گڈانی کے قریبی دوستوں میں شمار ہونے والے صحافی اسد پتافی کا کہنا ہے کہ نصراللہ گڈانی کے وی لاگ ریکارڈ پر ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ نصراللہ گڈانی گزشتہ دو تین ماہ سے ایس ایس پی گھوٹکی اور دیگر پولیس افسران کے خلاف بھی مسلسل نام لے کر بات کرتے رہے ہیں۔ مگر ڈی آئی جی سکھر کی جانب سے نصراللہ گڈانی قتل کیس کی انوسٹی گیشن کے لیے ایس ایس پی گھوٹکی کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے۔
اُن کے بقول "ہم سمجھتے ہیں کہ نصراللہ گڈانی کے قتل کی عدالتی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ نصراللہ نے جن لوگوں کے خلاف بات کی ان کو کم سے کم شک کے دائرے میں تو لایا جائے مگر ایسا ہوتا ہوا بھی دکھائی نہیں دے رہا۔
اُن کے بقول ایسا نہیں لگتا کہ طاقت ور سرداروں کو بلا کر پولیس تفتیش کرے گی۔
نصراللہ گڈانی کے ایک اور دوست برکت میرانی کہتے ہیں کہ نصراللہ نے اپنی بائیک پر 'بھوتار مائی فٹ' لکھا ہوا تھا جو اب وائرل ہو رہا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی ) کا کہنا ہے کہ "پاکستان میں صحافیوں کو درپیش صورتِ حال پر سخت تشویش ہے۔ صرف اس سال مبینہ طور پر کم از کم تین صحافی ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے ہیں۔"
انٹرنیشنل فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے رواں ماہ جاری کی گئی ایک رپورٹ میں اسلام آباد کے بعد صوبہ سندھ کو صحافیوں کے لیے انتہائی خطرناک قرار دیا تھا۔
گزشتہ برس اگست میں سکھر کے صحافی جان محمد مہر کو بھی موٹر سائیکل پر سوار مسلح افراد نے فائرنگ کر کے قتل کیا تھا مگر تاحال ان کے قتل کیس میں نامزد ملزمان گرفتار نہیں ہو سکے۔