|
پاکستان میں رہائشی منصوبے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے کہا ہے کہ وہ کسی کے خلاف وعدہ معاف گواہ نہیں بنیں گے چاہے ان پر جو بھی ظلم ہو۔
ملک ریاض نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے دفاتر میں چھاپے کے بعد پانچ ہزار سے زائد اہم پراجیکٹ فائلیں، دفتری ریکارڈ اور دیگر چیزیں ضبط کر لی گئی ہیں جب کہ چھاپہ مار ٹیموں نے توڑ پھوڑ کے علاوہ سیکیورٹی عملے کو ہراساں کرنے کے بعد انہیں اغوا کر لیا ہے۔
بحریہ ٹاؤن کے دفتر میں چھاپوں کی بعض ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں اور ان میں سے ایک ویڈیو ملک ریاض نے خود جاری کی ہے جس میں سادہ لباس میں ملبوس افراد کو چھان بین کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
ملک ریاض نے منگل اور بدھ کی درمیانی شب سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر جاری ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ انہیں دباؤ میں لینے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کے پس پردہ ریاستی ادارے ہیں اور ان کے یہ ظلم کسی بھی سیاسی اقتدار کی جدوجہد میں فریق نہ بننے کے اعلان کے بعد سے ہو رہا ہے۔
واضح رہے کہ ملک ریاض کا شمار پاکستان کے ایسے بااثر سرمایہ کاروں میں ہوتا ہے جن کے بیک وقت سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات ہیں۔ ماضی میں وہ سیاسی معاملات میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے رہے ہیں۔
ملک ریاض اپنے خلاف سرکاری اداروں کی مبینہ کارروائیوں اور مظالم کا دعویٰ ایسے موقع پر کر رہے ہیں جب انہیں القادر ٹرسٹ اور 190 ملین پاؤنڈ کیسز کا سامنا ہے اور ان دونوں کیسز میں وہ اشتہاری قرار دیے جا چکے ہیں۔ عدالت ان کی جائیداد ضبط کرنے کے احکامات بھی دے چکی ہے۔
ملک ریاض پر الزام ہے کہ انہوں نے برطانیہ میں ایک مقدمے میں تصفیہ کیا تھا جس کے بعد برطانوی کرائم ایجنسی نے ان سے حاصل 190 ملین پاؤنڈ کی رقم حکومتِ پاکستان کی ملکیت قرار دیا تھا۔ یہ رقم پاکستان کے قومی خزانے میں پہنچنے کے بجائے سپریم کورٹ کے اُس اکاؤنٹ تک پہنچی تھی جس میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کو 460 بلین روپے ایک تصفیے کے تحت قسطوں میں ادا کر رہے تھے۔
حکومت نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ یہ معاملہ ملک ریاض اور 2019 میں اس وقت کی عمران خان کی حکومت کے درمیان طے پانے والے ایک خفیہ معاہدے کا نتیجہ تھا۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ مذکورہ معاہدے کے عوض بحریہ ٹاؤن نے مارچ 2021 میں ضلع جہلم کے علاقے سوہاوہ میں 458 کنال اراضی القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کو عطیہ کی جس کے ٹرسٹی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی ہیں۔
بحریہ ٹاؤن کے دفاتر پر مبینہ چھاپے ایسے موقع پر مارے جا رہے ہیں جب 190 ملین پاؤنڈ کیس میں گواہان کے بیانات قلم بند کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف کا دعویٰ ہے کہ حکومت اور ریاستی اداروں کی جانب سے ملک ریاض کو عمران خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
تحریکِ انصاف کے رہنما اور سابق معاون خصوصی زلفی بخاری نے کہا ہے کہ اگر آپ بحریہ ٹاؤن کو پسند کرتے ہوں یا نہیں لیکن اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ ملک ریاض اور ان کے بیٹے کو سزا دینے کے لیے ہے۔
ان کے بقول ایسا اس وجہ سے کیا جا رہا ہے کیوں کہ ملک ریاض نے عمران خان کے خلاف بیان دینے سے انکار کر دیا ہے۔
ملک ریاض کا بھی کہنا ہے کہ وہ قانونی فورمز پر تمام مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور جاری پوچھ گچھ میں تعاون کر رہے ہیں۔ لیکن وہ کسی طاقت کے کھیل میں کٹھ پتلی نہیں بنیں گے۔
انہوں نے کسی ادارے یا شخص کا نام لیے بغیر کہا کہ " آپ میرا کاروبار تباہ نہیں کر رہے۔ آپ کے اقدامات ملک کی معاشی ترقی کو روک رہے ہیں۔ اگر ان غیر قانونی اقدامات کے پیچھے اصل ایجنڈا یہی ہے تو پاکستانی عوام دیکھیں کہ یہ اصل میں کیا ہے اور کون کر رہا ہے۔"
حکومتی رہنما یا کسی سرکاری ادارے کی جانب سے ملک ریاض کے دفاتر پر چھاپوں یا انہیں ہراساں کیے جانے سے متعلق کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔