بھارت کے شہر ایودھیا میں بابری مسجد کی اراضی کے بدلے دی جانے والی پانچ ایکڑ زمین پر تعمیر کی جانے والی مجوزہ مسجد کا ڈیزائن ‘اتر پردیش اسٹیٹ سنی سینٹرل وقف بورڈ’ نے جاری کر دیا ہے۔
یہ مسجد ایودھیا کے سوہاول تحصیل کے موضع دھنی پور میں بنائی جائے گی جو کہ بابری مسجد کے اصل مقام سے 20 کلومیٹر دور ہے۔
بھارت کی سپریم کورٹ نے 9 نومبر 2019 کو بابری مسجد، رام مندر تنازع میں سنائے جانے والے فیصلے میں مسجد کی اراضی رام مندر کی تعمیر کے لیے ہندوؤں کو دینے کا حکم دیا تھا اور ریاست اتر پردیش کی حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ اس کے بدلے پانچ ایکڑ زمین مسلمانوں کو دے۔ جہاں دوسری مسجد تعمیر کی جا سکے۔
اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ ایوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت نے بابری مسجد سے 20 کلومیٹر دور دھنی پور گاؤں میں مسجد کی تعمیر کے لیے زمین دی تھی۔
واضح رہے کہ بابری مسجد کو 6 دسمبر 1992 کو ہزاروں ہندوتوا کارکنوں نے منہدم کر دیا تھا۔
ہندووں کا دعویٰ تھا کہ رام مندر توڑ کر بابری مسجد کی تعمیر ہوئی تھی۔
مسجد کے لیے زمین کی دستیابی کے بعد اتر پردیش اسٹیٹ سنی سینٹرل وقف بورڈ نے ‘انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن’ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا اور فاؤنڈیشن ہی مسجد کی تعمیر کی مجاز ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ آرکیٹکچر سے وابستہ پروفیسر ایس ایم اختر مسجد کے نقشہ ساز ہیں، فاؤنڈیشن کے ارکان کے ساتھ ہفتے کے روز نئی دہلی سے انہوں نے ورچوئل پروگرام میں مسجد کے کمپلیکس کا نقشہ جاری کیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
انھوں نے بتایا کہ توقع ہے کہ بھارت کے یوم جمہوریہ پر یعنی اگلے سال 26 جنوری کو مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا۔ تاہم اگر نقشے کی منظوری بر وقت نہ ہو سکی۔ تو سنگ بنیاد 15 اگست کو یعنی بھارت کے یومِ آزادی پر رکھا جائے گا۔
ان کے مطابق اس موقع پر کوئی بڑی تقریب منعقد نہیں کی جائے گی۔ البتہ مسجد اور اسپتال کی عمارت کی تکمیل کے بعد ملک کی اہم شخصیات کو وہاں کا دورہ کرایا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ مسجد دو منزلہ ہو گی۔ اس میں نہ تو گنبد ہو گا، نہ مینار اور نہ ہی محرابیں۔ مسجد میں بیک وقت دو ہزار افراد نماز ادا کر سکیں گے۔ یہ بابری مسجد سے چھ گنا بڑی ہو گی۔ اس میں خواتین کی نماز کے لیے الگ انتظام ہو گا۔
بیان کے مطابق مسجد کے علاوہ 200 بستروں پر مشتمل خصوصی اسپتال، ایک کمیونٹی کچن، ایک جدید لائبریری اور ایک میوزیم بھی تعمیر ہو گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مسجد 3500 مربع میٹر پر تعمیر ہو گی۔ جب کہ اسپتال اور دیگر عمارتیں 24150 مربع میٹر پر ہوں گی۔ مسجد اور دیگر عمارتیں جدید طرز کی ہوں گی۔
انہوں نے بتایا کہ مسجد کی عمارت بیضوی شکل میں ہوگی۔ سولر توانائی پر مبنی خود کار بجلی اور فطری درجۂ حرارت کا نظام ہو گا۔ تاہم اس کے نام کے بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکا ہے۔
انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن کے سیکریٹری اطہر حسین کے مطابق یہ مسجد بابر یا کسی بادشاہ یا نواب کے نام پر نہیں ہو گی۔ انہوں نے تجویز دی ہے کہ اس کا نام ‘دھنی پور مسجد’ رکھا جائے۔
ایس ایم اختر کے مطابق مسجد ماحول دوست ہو گی۔ ایمیزون رین فارسٹ اور آسٹریلیا سمیت دنیا بھر سے پودے لا کر لگائے جائیں گے۔
ان کے بقول اسپتال کی عمارت مسجد سے الگ ہو گی۔ وہ گراؤنڈ فلور کو چھوڑ کر چار منزلہ ہوگی۔ اس اسپتال میں خوراک کی کمی کے شکار بچوں اور حاملہ خواتین کے لیے خاص انتظام ہوگا۔
بیان کے مطابق ٹرسٹ کا ایک دفتر ہو گا اور ایک اشاعتی مرکز بھی ہوگا۔ جہاں سے انڈو اسلامک کلچر سے متعلق تحقیقی کتابیں اور مقالے شائع کیے جائیں گے۔ جب کہ میوزیم میں مسلمانوں کے علاوہ ہندوؤں کی تہذیب و ثقافت کو بھی جگہ دی جائے گی۔
ٹرسٹ کے حکام کے مطابق ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ مسجد اور دیگر عمارتوں کی تعمیر کے لیے سرمائے کی فراہمی کہاں سے ہو گی۔ تاہم اندازے کے مطابق صرف اسپتال کی عمارت پر 100 کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سابق پروفیسر پشپیش پنت کو میوزیم کا مہتمم بنایا گیا ہے۔جو کہ نقشہ جاری کرتے وقت بھی موجود تھے۔
اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ان کے لیے خوشی کی بات یہ ہے کہ ایک ہندو کو میوزیم کا نگران بنایا گیا ہے۔ پشپیش پنت بین الاقوامی تعلقات کے امور کے ماہر مانے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میوزیم میں نہ صرف لکھنوؤ کی تہذیب وثقافت بلکہ پورے اودھ خطے کی تہذیب و ثقافت کو دکھایا جائے گا۔
پروفیسر اختر نے بتایا کہ انہوں نے دنیا بھر کی جدید مسجدوں کے ڈیزائن کا مطالعہ کیا۔ انہوں نے کرناٹک میں بحرِ عرب کے ساحل پر بنی قدیم مسجد کا بھی جائزہ لیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مسجد کی عمارت جدید طرز کی ہونی چاہیے۔