رسائی کے لنکس

بابری مسجد کیس: سنی وقف بورڈ کا نظر ثانی اپیل دائر نہ کرنے کا اعلان


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بابری مسجد کیس کے اہم فریق سنی وقف بورڈ نے نو نومبر کو سنائے گئے سپریم کورٹ آف انڈیا کے فیصلے پر نظر ثانی اپیل دائر نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

سنی وقف بورڈ کے چئیرمین ظفر فاروقی نے منگل کو نئی دہلی میں ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ اجلاس میں کثرت رائے سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ایودھیا تنازع پر نظر ثانی اپیل دائر نہیں کی جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ اجلاس میں بورڈ کے آٹھ میں سے سات اراکین شریک ہوئے، جن میں سے چھ کی رائے یہ تھی کہ فیصلے پر نظرثانی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع نہ کیا جائے۔

خیال رہے کہ نو نومبر کو بھارت کی سپریم کورٹ نے سالہا سال سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تنازع کی وجہ بننے والے ایودھیا کیس کا فیصلہ سنایا تھا، جس کے تحت متنازع زمین ہندوؤں کے حوالے کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ عدالت نے مسجد کی تعمیر کے لیے مسلمانوں کو پانچ ایکٹر متبادل زمین دینے کا بھی حکم دیا تھا۔

ظفر فاروقی نے بتایا کہ بورڈ نے تاحال یہ فیصلہ نہیں کیا کہ وہ پانچ ایکڑ متبادل زمین کی پیش کش قبول کریں گے یا نہیں۔ ان کے بقول، بورڈ نے فیصلہ کیا ہے کہ حکومت کی پیش کش کے بعد زمین سے متعلق فیصلہ کیا جائے گا۔

اس سے قبل آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ نے اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ بھارت کے ذرائع ابلاغ کے مطابق آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ ایودھیا کیس میں فریق جمعیت علماء ہند کے توسط سے نظر ثانی کی اپیل دائر کرے گا۔

بھارت کے ذرائع ابلاغ کے مطابق، ایودھیا کیس فیصلے پر نظر ثانی اپیل دائر کرنے کے معاملے پر اختلاف رائے سامنے آ رہا ہے۔

صدر آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین اسد اولد اویسی نے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے کہا ہے تھا کہ انہیں پانچ ایکڑ زمین کی خیرات نہیں چاہیے۔

خبر رساں ادارے 'انڈیا ٹی وی' کے مطابق، بھارت کی سو کے لگ بھگ معروف فلمی شخصیات نے بھی ایودھیا کیس فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل دائر نہ کرنے پر زور دیا ہے۔

اداکار نصیر الدین شاہ، شبانہ اعظمی سمیت بھارت کے مسلمان مصنف، ادیبوں، شاعروں اور طلبہ کے دستخطوں پر مشتمل بیان میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے کو دوبارہ عدالت میں زیرِ بحث لانا بھارتی مسلمانوں کے حق میں بہتر نہیں ہو گا۔

بھارت کی سپریم کورٹ نے نو نومبر کو اس اہم کیس کا فیصلہ سنایا تھا۔
بھارت کی سپریم کورٹ نے نو نومبر کو اس اہم کیس کا فیصلہ سنایا تھا۔

ایودھیا کیس تھا کیا؟

سولہویں صدی میں تعمیر کی جانے والی بابری مسجد کے بارے میں ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ وہاں ان کے مذہبی رہنما رام جی پیدا ہوئے تھے۔ ہندوؤں کا مؤقف ہے کہ پہلے وہاں مندر تھا جسے مسلمان حکمران ظہیر الدین بابر کے سپہ سالار میر باقی نے منہدم کر کے وہاں مسجد تعمیر کی تھی۔

مسلمان اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے آئے ہیں۔

یاد رہے کہ چھ دسمبر 1992 کو وشو ہندو پریشد کی اپیل پر بھارت کے شہر ایودھیا میں واقع مسجد کے نزدیک ہندوؤں کا ایک بڑا اجتماع ہوا تھا جس نے بابری مسجد منہدم کر دی تھی۔ اس کے بعد وہاں ایک عارضی مندر بنا دیا گیا تھا جس میں آج تک پوجا ہو رہی ہے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ بابری مسجد خالی زمین پر تعمیر نہیں کی گئی تھی جب کہ جس جگہ یہ مسجد تعمیر کی گئی وہاں مسلمانوں کی پہلے کوئی تعمیر نہیں تھی۔

عدالت نے حکم دیا تھا کہ سنی وقف بورڈ کو مسجد کی تعمیر کے لیے ایودھیا میں متبادل جگہ دی جائے۔ عدالت نے متنازع زمین ہندوؤں کو دینے کا حکم دیتے ہوئے مندر کی تعمیر کے لیے تین ماہ میں ٹرسٹ قائم کرنے کی بھی ہدایت کی تھی۔

XS
SM
MD
LG