خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات: کاغذاتِ نامزدگی کی وصولی کا عمل شروع

فائل فوٹو

خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی کی وصولی کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ صوبے کے 17 اضلاع میں 19 دسمبر کو پولنگ ہو گی جب کہ دیگر 17 اضلاع میں جنوری 2022 کے وسط میں انتخابات شیڈول ہیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر صوبائی حکومت نے لگ بھگ دو سال کے تعطل کے بعد بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کیا ہے۔

بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کے بعد خیبر پختونخوا کے 17 اضلاع میں سیاسی سرگرمیاں زور و شور سے جاری ہیں اور انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی کوشش ہے کہ وہ مقبول سیاسی جماعتوں اور علاقے کے بااثر افراد اور گھرانوں کی حمایت حاصل کریں۔

اب تک کسی بھی سیاسی اتحاد بننے کے بارے کوئی باضابطہ اعلان سامنے نہیں آیا۔ مگر حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل جماعتیں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اور دیگر حریف سیاسی جماعتوں کے خلاف مشترکہ امیدوار نامزد کرنے کے بارے میں صلاح و مشورے کر رہی ہیں۔

صوبائی حکومت کے جاری کردہ شیڈول کے مطابق پشاور، مردان، چارسدہ، بنوں، بونیر، باجوڑ، مردان، صوابی، نوشہرہ، کوہاٹ، کرک، ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، ہری پور، خیبر، مہمند، ہنگو اور لکی مروت میں بلدیاتی اداروں کے انتخابات 19 دسمبر کو ہوں گے۔

SEE ALSO: صوبے مقامی حکومتوں کے انتخابات کرانے سے گریزاں کیوں ہیں؟

امیدوار چار سے آٹھ نومبر تک اپنے کاغذاتی نامزدگی جمع کرا سکتے ہیں۔ کاغذات کی جانچ پڑتال اور حتمی امیدواروں کے بعد انہیں انتخابی نشان 23 نومبر کو الاٹ کیا جائے گا۔

بلدیاتی انتخابات یونین کونسل کی سطح پر غیر جماعتی بنیادوں پر ہوں گے جہاں ووٹرز ولیج کونسل اور نائبر ہوڈ کونسل کے لیے غیر جماعتی بنیادوں پر نمائندوں کو منتخب کریں گے جب کہ تحصیل اور میونسپل سطح پر پارٹی بنیادوں پر امیدواروں کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔

سیاسی جماعتوں کی تیاریاں

خیبر پختونخوا میں دسمبر اور جنوری کے وسط میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں نے تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ اس سلسلے میں ضلعی اور تحصیل کی سطح پر مختلف سیاسی جماعتوں کے مقامی رہنماؤں اور عہدیداروں کے درمیان ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کے لیے رابطے بھی شروع ہو رہے ہیں۔ تاہم اب تک کسی قسم کا باضابطہ اتحاد سامنے نہیں آیا۔

عوامی نیشنل پارٹی نے بلدیاتی انتخابات میں وطن دوست گروپ کے نام سے حصہ لینے کا اعلان کیا ہے جب کہ جمیعت علمائے اسلام (ف) کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کی کوشش ہو گی کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں پر مشتمل ایک اتحاد تشکیل دیا جائے تاکہ بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں حکمران جماعت کو شکست دی جا سکے۔

انتخابات کی نگرانی کرنے والے غیر سرکاری ادارے فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافین) کی عہدیدار ظہیر خٹک نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ماضی کے بر عکس اس بار تمام صوبوں میں صوبائی حکومتوں نے بلدیاتی انتخابات کے لیے علیحدہ علیحدہ طرز اپنایا ہے جس سے اس نظام کو مزید پیچیدہ کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس بار خیبر پختونخوا میں ضلعی سطح پر نہ تو بلدیاتی ادارے، ضلع کونسل اور نہ ضلعی ناظم یا چیئرمین ڈسٹرکٹ کونسل کا کوئی وجود دکھائی دیتا ہے۔

'صوبائی حکومت انتخابات کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتی'

تجزیہ کار زاہد اسلام صوبے میں نئے بلدیاتی نظام کو مؤثر قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول نیا نظام نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی کے لیے نہایت مؤثر ثابت ہو گا کیوں کہ اس میں سب سے زیادہ اختیارات تحصیل کی سطح پر حاصل ہوں گے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومتوں کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ بلدیاتی اداروں کے اختیارات کو محدود کیا جائے۔ اسی وجہ سے خیبر پختونخوا حکومت نے بھی محکمۂ صحت سمیت بعض اداروں پر بلدیاتی اداروں کی نگرانی کو ختم کر دیا ہے۔

پشاور کے ضلعی کونسل میں 2015 سے 2019 تک قائد حزبِ اختلاف رہنے والے سعید ظاہر ایڈووکیٹ کہتے ہیں سپریم کورٹ کے حکم پر صوبائی حکومت نے بلدیاتی اداروں کے انتخابات کا شیڈول تو جاری کر دیا ہے لیکن وہ اس کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتی۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اراکین اسمبلی بلدیاتی اداروں کو اختیارات دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے اسی وجہ سے یہ نظام تعطل کا شکار رہتا ہے۔

خیبر پختونخوا کے بلدیاتی اداروں سے ضلعی سطح کے اداروں کو باہر کرنے سے متعلق سوال پر سعید ظاہر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ یہ اقدام نوکر شاہی کی ایما پر کیا گیا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

اسلام آباد کی تاریخ میں پہلے بلدیاتی انتخابات

ان کے بقول "2001 سے رائج نظام میں نوکر شاہی کو ضلعی ناظم کے ماتحت کر دیا گیا تھا جس سے بیوروکریٹ ناراض ہو گئے تھے اسی وجہ سے اب ضلعی اداروں کو اس سے علیحدہ کر دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے سابق بلدیاتی عہدیداروں نے پشاور ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن بھی دائر کر رکھی ہے۔"

خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ کے مشیر برائے بلدیات و اطلاعات کامران بنگش کے مطابق صوبائی حکومت انتخابات کے انعقاد کے لیے مالی اور لاجسٹک طور پر مکمل تیار ہے اور الیکشن کمیشن کو مکمل تعاون کی یقین دہائی کراتی ہے

واضح رہے کہ صوبائی حکومت نے سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن میں دائر کردہ اپنے جوابات میں آئندہ برس مارچ تک دو مرحلوں میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی تجویز پیش کی تھی۔

صوبائی حکومت کا مؤقف تھا کہ پہلے مرحلے میں یونین کونسل اور دوسرے مرحلے میں تحصیل یا میونسپل سطح کے انتخابات ہوں گے۔ تاہم سپریم کورٹ کے حکم پر اب صوبائی حکومت نے انتخابات کے لیے دسمبر اور جنوری کے شیڈول کا اعلان کیا ہے۔

خیبرپختونخوا میں انتخابات کا طریقہ کار

خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نظام میں یونین کونسل کی سطح پر ولیج یا نائیبر ہوڈ کونسل اور تحصیل کی سطح پر تحصیل کونسل پر مشتمل ہے۔

ہر کونسل میں جنرل سیٹ کی تعداد تین ہوں گی جن میں خاتون، نوجوان، کسان کے لیے ایک ایک اور ایک نشست اقلیتوں کے لیے ہو گی۔

اس طرح ایک کونسل میں کل ممبران کی تعداد سات ہو گی۔ ولیج میں جو بھی ایک نمبر پر آئے گا وہ ولیج ناظم اور تحصیل اسمبلی کا ممبر بھی ہو گا۔

امیدواروں کے لیے شرائط

امیدوار کے لیے انتخاب لڑنے کے لیے تعلیمی قابلیت کی کوئی شرط نہیں رکھی گئی۔ البتہ نوجوان سیٹ کے انتخابات کے لیے 21 سے 30 سال تک اور باقی نشستوں کے لیے 21 سال سے زائد کی عمر کی شرط ہے۔

امیدوار صرف اسی کونسل سے انتخابات لڑ سکتا ہے جہاں اس کا ووٹ بطور ووٹر انتخابی فہرست میں درج ہو۔ ولیج یا نائبر ہوڈ کونسل کے انتخابات کی نامزدگی فارم جمع کرنے کی فیس پانچ ہزار روپے جب کہ تحصیل چیئرمین کی نشست کے انتخابات کی نامزدگی فارم جمع کرنے کی فیس 50 ہزار روپے ہے اور یہ ناقابلِ واپسی فیس ہو گی۔

تحصیل چیئرمین کی نشست کے لیے انتخاب ایم این اے یا ایم پی اے کی طرز پر ہو گا۔ یعنی پوری تحصیل کونسل میں جتنے ووٹر رجسٹرڈ ہیں وہ تحصیل چیئرمین کو ووٹ ڈالیں گے۔

ضلع کونسل کا نظام اس دفعہ ختم کیا گیا ہے اس لیے ضلع ممبر یا ضلع ناظم نہیں ہے۔

یونین کونسل لیول پر اس بار انتخابات نہیں ہوں گے۔ اس بار صرف نیبر ہوڈ یا ولیج کونسلز ہوں گے۔

واضح رہے کہ نیبر ہوڈ وہ کونسل ہے جو شہری علاقوں پر مشتمل ہے جب کہ ولیج کونسل دیہی علاقوں میں ہے۔

موجودہ نظام میں یونین کونسل کا تصور ہی ختم کیا گیا ہے جو نیبر ہوڈ اور ولیج کونسل سے بڑی آبادی پر مشتمل ہوتا تھا جسے 2015 کے انتخابات میں وارڈ کا نام دیا گیا تھا۔