اپوزیشن جماعتوں نے قبل از وقت انتخابات کو ملک میں جاری سیاسی و آئینی بحران کا حل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس آئینی مطالبے پر کسی قسم کی مفاہمت نہیں کر سکتے۔
اسلام آباد میں کثیر الجماعتی کانفرنس کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں نئے انتخابات کے لئے تیار ہیں۔
جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی میزبانی میں منعقدہ کثیر الجماعتی کانفرنس میں اپوزیشن کی نو جماعتوں کے سربراہان اور نمائندگان نے شرکت کی اور ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا۔
کانفرنس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے چار مطالبات: وزیر اعظم کا استعفیٰ، نئے انتخابات، انتخابی عمل میں فوج کا کردار ختم کرنے اور آئین میں اسلامی دفعات کے تحفظ کے مطالبات کی توثیق کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ کسی ریاستی ادارے کو اپنے دائرے سے تجاوز کی اجازت نہیں اور ہر صورت میں آئین کی بالادستی کو قائم رکھا جائے گا۔ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ نئے شفاف انتخابات ہمارا حتمی مطالبہ ہے، جس پر کوئی مفاہمت نہیں کی جائے گی۔
خیال رہے کہ جمعیت علماء اسلام نے کراچی سے شروع ہونے والے حکومت مخالف مارچ کے اسلام آباد پہنچنے کے بعد 13 روز تک دھرنا دیے رکھا۔ تاہم، وزیر اعظم کے استعفے سمیت ان کے بنیادی مطالبات میں سے کسی پر پیش رفت نہیں ہو سکی۔
مولانا فضل الرحمٰن نے بتایا کہ کانفرنس نے الیکشن کمیشن سے حکومتی جماعت تحریک انصاف کے خلاف جاری غیر ملکی فنڈنگ کے مقدمے کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت اور اس کے جلد فیصلے کا مطالبہ بھی کیا۔
مشترکہ اپوزیشن نے ایک تین رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی ہے جو الیکشن کمیشن کے دو ممبران اور نئے چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کے لئے متفقہ نام حکومت کو تجویز کرے گی۔ مولانا فضل الرحمٰن کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے اور چاہتے ہیں کہ وہ اپنا کام بلا تعطل جاری رکھے جس کے لئے اپنی ذمہ داری کو جانتے ہوئے یہ کمیٹی تشکیل دی ہے۔
اپوزیشن رہنماؤں نے سی پیک اتھارٹی کے قیام کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے اس اتھارٹی کا قیام پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات سے متصادم ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے بتایا کہ کانفرنس نے ناروے میں ہونے والے قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعے کی مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا کہ حکومت واقعے کے خلاف سخت احتجاج ریکارڈ کرائے۔ کانفرنس میں پنجاب حکومت کی جانب سے بلدیاتی اداروں کی غیر جمہوری برطرفی کی مذمت اور ان کی فی الفور بحالی کا مطالبہ کیا گیا۔
پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو نے کہا کہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ ’’سلیکٹڈ وزیر اعظم کو قبول نہیں کیا جائے گا‘‘ اور یہ کہ ’’وہ نہ اس سلیکٹیڈ کو مانتے ہیں نہ ہی کسی اور سلیکٹیڈ کو مانیں گے، بلکہ عوامی وزیر اعظم کو لانا چاہتے ہیں‘‘۔
بلاول بھٹو نے اپنے والد اور سابق صدر آصف زرداری کی صحت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ کافی عرصے سے علیل ہیں اور حکومت ذاتی معالج کو سابق صدر تک رسائی نہیں دے رہی۔ انہوں نے کہا کہ آصف زرداری مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور ضمانت کے لئے رجوع نہیں کر رہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ سندھ کے کیس کی راولپنڈی میں سماعت آئین کے خلاف ہے اور امید ظاہر کی کہ ان کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سنا جائے گا اور انصاف کے تقاضوں کے تحت آصف زرداری کا مقدمہ سندھ بجھوایا جائے گا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا حکم نامہ سپریم کورٹ کی جانب سے معطل کیے جانے سے متعلق سوال پر مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے اور ان کا موقف واضع ہے کہ سرکاری ملازمت کی مدت میں توسیع نہیں کی جانی چاہئے۔
خیال رہے کہ حکومت کی جانب سے آرمی چیف کی مدت میں تین سال کی توسیع کے حکم نامے کو سپریم کورٹ نے منسوخ کرتے ہوئے فریقین سے بدھ کو جواب طلب کیا ہے۔