’مسٹر رامنی سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ حسب سابق اُن کا وقت ا پنی پالیسیوں کے دفاع میں گُذر جا ئے گا۔ لیکن, ہوا اِس کے بر عکس‘ : وال سٹریٹ جرنل
رواں سال کے انتخابی امّیدواروں ، یعنی صدر اوبامہ اور اُنکے ری پبلکن مدّمقابل مٹ رامنی کے مابین بُدھ کی رات کو پہلا صدارتی مباحثہ ہوا جس پر واشنگٹن پوسٹ لکھتا ہے کہ کئی ماہ تک سُبکی کے لمحوں سے گذرنے اورانتخابی پینترے بدلنے کے بعد اس مباحثے میں مٹ رامنی پُورے اعتماد کے ساتھ صدر اوبامہ کے برابر نظر آئے ۔ جہاں انہوں نے بالآخر اپنا متبادل اقتصادی نظریہ پیش کیا ، اور اوبامہ کے نظریات کا مذاق اُڑایا ۔ جنھیں اُنھوں نے Trickle down government approachسے تعبیر کیا۔
رامنی کا سارا زور یہ ثابت کرنے پر تھا کہ اوبامہ کی قیادت میں ملک کی معاشی بحالی کا عمل نا اُمیدی کی حد تک کمزور رہا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ یہ وہ مسئلہ ہے جس کی ایک عام امریکی ووٹر کے لئے سب سے زیادہ اہمیت ہے اور اخبار کو اس بات پر حیرت ہے کہ صدر اوبامہ نے اپنی اُن سابقہ دلائل میں سے کسی کا بھی سہارا نہیں لیا،جن کا وہ گُذشتہ کئی مہینوں کے دوران کامیابی کے ساتھ استعمال کرتے آئے ہیں ۔ مثلاً ایک کمپنی سے مزدوروں کو کو ملازمت سے نکال دینا یا پھر اس خفیہ وڈدیو کا جس میں مسٹر رامنی اپنے دولتمند چندہ دینے والوں سے یہ کہتے سُنائی دیتے ہیں ، کہ امریکہ کے جو 47 فی صد لوگ انکم ٹیکس نہیں دیتےوہ حکومت کے دست نگر ہیں ، اور اپنے آپ کو مظلُوم سمجھتے ہیں۔
اِسی موضوع پر ’ وال سٹریٹ جرنل ‘کہتاہے کہ مسٹر رامنی اس مباحثے میں شرکت کرنے کے لئے پُوری تیاری کر کے آئے تھےاور اُنہوں نے اپنے انتخابی پروگرام کا بھر پور دفاع کیا، اور کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی تھی کہ ما فی ضمیر کی ادائیگی کے اس مقابلے میں مسٹر اوبامہ اپنے آپ کو اس قدر مضطرب پائیں گے۔
اخبار کہتا ہے کہ اِس مباحثے کےبارے میں جن توقعات اور کردار کا تصوّر باندھا گیا تھا ، ہُوا اُس کے بالکُل برعکس ۔ سابقہ کار کردگی کی روشنی میں مسٹر رامنی سے یہ توقع کی جارہی تھی کہ حسب سابق اُن کا وقت ا پنی پالیسیوں کے دفاع میں گُذر جا ئے گا۔ لیکن ہوا اس کے بر عکس ،اور مباحثے کے بیشتر وقت کے دوراں اُن کے بدلے مسٹر اوبامہ دفاعی کردار ادا کرتے رہے۔
پہلے صدارتی مباحثے کو ’ نیو یارک ٹائمز‘ نے ایک ادارئے میں لاحاصل قرار دیتے ہو ئے کہا ہے کہ صدر اوبامہ اور مٹ رامنی کےدرمیان اس مباحثے کا اتنے عرصے جو انتظار تھا وُہ آغاز ہی سے گھسے پٹے جملوں اور غلط بیانی کا شکار ہو گیا۔ اور اس کے اختتام پر ووٹروں کا ذہن اس بارے میں بالکل صاف نہ ہو سکا کہ دونوں امّیدواروں کی پالیسیاں کس طور ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
مسٹر رامنی کے بارے میں اخبار کا خیال ہے کہ اس مباحثے میں وہ وہ رامنی نہیں تھے، جنہیں پارٹی کے دائیں بازو والے پلیٹ فارم کی بنیاد پر امید وار نامزد کیا گیا تھا۔ اخبار کی نظر میں اس پلیٹ فارم کی بنیاد ہے ٹیکسوں میں چُھوٹ دینا، بجٹ میں کٹوتی کرنا ، اور اقتصادی لحاظ سے بد حال طبقے کی مشکلات سے پہلو تہی کرنا۔
اور، اخبار کہتا ہے کہ سنہ 2008 میں مسٹر اوبامہ نے مسابقت کی جس صلاحیت کا مظاہرہ کیا تھا ، اب کی بار وُہ نظر نہیں آئی اور اُنہوں نے بار بار ایسے مواقع ہاتھ سے جانے دئے جب وہ بقول اخبار کے مسٹر رامنی کی غلط بیانی اور موقف سے مکرنے کو چیلنج کر سکتے تھے۔
اخبار کی رائے ہے کہ مسٹر رامنی کا جو پلیٹ فارم ہے اس مباحشے میں انہوں نے عملی طور پر اس کو توڑ مروڈ کر پیش کیا ہے۔خاص طور پر مباحثے کے پہلے نصف کے دوران۔ جب انہوں نے کہا تھا کہ وہ امیروں کے ٹیکسوں میں کٹوتی نہیں کریں گے اور ٹیکسوں میں ایسی کمی کریں گے جس سے خسارے میں اضا فہ ہوِ۔ حالانکہ جیسا کہ اخبار کہتا ہے ، شواہد اس کے بر عکس ہیں۔
اخبار نے مسٹر اوبامہ کو اس بات پر آڑے ہاتھوں لیاہے کہ اُنہوں نے مسٹر رامنی کے اس الزام کو چیلنج نہیں کیا ۔ کہ مسٹر اوبامہ Trickle down government approachکی حمایت کرتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اوبامہ کو اس کی وضاحت طلب کرنی چاہئیے تھی اور مسٹر رامنی کو بتادینا چاہئیے تھا ۔ کہ حقیقت میں یہ مسٹر رامنی کا وُہ فرسُودہ تصوُر ہے جس کے تحت اُوپری طبقے کو ٹیکسوں میں چھوٹ دینے کے ساتھ متوسط طبقے اور غریبوں کی کوئی بھلائی ہونے کی امید باندھی جاتی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ ابھی دو صدارتی مباحثےباقی ہیں اور حقائق ان کے ساتھ ہیں جِن کی مدد سے، بقول اخبار کے، وُہ اپنے مد مقابل کےبودے پن کی قلعی کھول سکتے ہیں، لیکن اس کے لئے انہیں جارحانہ وطیرہ اپنانا پڑے گا۔
رامنی کا سارا زور یہ ثابت کرنے پر تھا کہ اوبامہ کی قیادت میں ملک کی معاشی بحالی کا عمل نا اُمیدی کی حد تک کمزور رہا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ یہ وہ مسئلہ ہے جس کی ایک عام امریکی ووٹر کے لئے سب سے زیادہ اہمیت ہے اور اخبار کو اس بات پر حیرت ہے کہ صدر اوبامہ نے اپنی اُن سابقہ دلائل میں سے کسی کا بھی سہارا نہیں لیا،جن کا وہ گُذشتہ کئی مہینوں کے دوران کامیابی کے ساتھ استعمال کرتے آئے ہیں ۔ مثلاً ایک کمپنی سے مزدوروں کو کو ملازمت سے نکال دینا یا پھر اس خفیہ وڈدیو کا جس میں مسٹر رامنی اپنے دولتمند چندہ دینے والوں سے یہ کہتے سُنائی دیتے ہیں ، کہ امریکہ کے جو 47 فی صد لوگ انکم ٹیکس نہیں دیتےوہ حکومت کے دست نگر ہیں ، اور اپنے آپ کو مظلُوم سمجھتے ہیں۔
اِسی موضوع پر ’ وال سٹریٹ جرنل ‘کہتاہے کہ مسٹر رامنی اس مباحثے میں شرکت کرنے کے لئے پُوری تیاری کر کے آئے تھےاور اُنہوں نے اپنے انتخابی پروگرام کا بھر پور دفاع کیا، اور کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی تھی کہ ما فی ضمیر کی ادائیگی کے اس مقابلے میں مسٹر اوبامہ اپنے آپ کو اس قدر مضطرب پائیں گے۔
اخبار کہتا ہے کہ اِس مباحثے کےبارے میں جن توقعات اور کردار کا تصوّر باندھا گیا تھا ، ہُوا اُس کے بالکُل برعکس ۔ سابقہ کار کردگی کی روشنی میں مسٹر رامنی سے یہ توقع کی جارہی تھی کہ حسب سابق اُن کا وقت ا پنی پالیسیوں کے دفاع میں گُذر جا ئے گا۔ لیکن ہوا اس کے بر عکس ،اور مباحثے کے بیشتر وقت کے دوراں اُن کے بدلے مسٹر اوبامہ دفاعی کردار ادا کرتے رہے۔
پہلے صدارتی مباحثے کو ’ نیو یارک ٹائمز‘ نے ایک ادارئے میں لاحاصل قرار دیتے ہو ئے کہا ہے کہ صدر اوبامہ اور مٹ رامنی کےدرمیان اس مباحثے کا اتنے عرصے جو انتظار تھا وُہ آغاز ہی سے گھسے پٹے جملوں اور غلط بیانی کا شکار ہو گیا۔ اور اس کے اختتام پر ووٹروں کا ذہن اس بارے میں بالکل صاف نہ ہو سکا کہ دونوں امّیدواروں کی پالیسیاں کس طور ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
مسٹر رامنی کے بارے میں اخبار کا خیال ہے کہ اس مباحثے میں وہ وہ رامنی نہیں تھے، جنہیں پارٹی کے دائیں بازو والے پلیٹ فارم کی بنیاد پر امید وار نامزد کیا گیا تھا۔ اخبار کی نظر میں اس پلیٹ فارم کی بنیاد ہے ٹیکسوں میں چُھوٹ دینا، بجٹ میں کٹوتی کرنا ، اور اقتصادی لحاظ سے بد حال طبقے کی مشکلات سے پہلو تہی کرنا۔
اور، اخبار کہتا ہے کہ سنہ 2008 میں مسٹر اوبامہ نے مسابقت کی جس صلاحیت کا مظاہرہ کیا تھا ، اب کی بار وُہ نظر نہیں آئی اور اُنہوں نے بار بار ایسے مواقع ہاتھ سے جانے دئے جب وہ بقول اخبار کے مسٹر رامنی کی غلط بیانی اور موقف سے مکرنے کو چیلنج کر سکتے تھے۔
اخبار کی رائے ہے کہ مسٹر رامنی کا جو پلیٹ فارم ہے اس مباحشے میں انہوں نے عملی طور پر اس کو توڑ مروڈ کر پیش کیا ہے۔خاص طور پر مباحثے کے پہلے نصف کے دوران۔ جب انہوں نے کہا تھا کہ وہ امیروں کے ٹیکسوں میں کٹوتی نہیں کریں گے اور ٹیکسوں میں ایسی کمی کریں گے جس سے خسارے میں اضا فہ ہوِ۔ حالانکہ جیسا کہ اخبار کہتا ہے ، شواہد اس کے بر عکس ہیں۔
اخبار نے مسٹر اوبامہ کو اس بات پر آڑے ہاتھوں لیاہے کہ اُنہوں نے مسٹر رامنی کے اس الزام کو چیلنج نہیں کیا ۔ کہ مسٹر اوبامہ Trickle down government approachکی حمایت کرتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اوبامہ کو اس کی وضاحت طلب کرنی چاہئیے تھی اور مسٹر رامنی کو بتادینا چاہئیے تھا ۔ کہ حقیقت میں یہ مسٹر رامنی کا وُہ فرسُودہ تصوُر ہے جس کے تحت اُوپری طبقے کو ٹیکسوں میں چھوٹ دینے کے ساتھ متوسط طبقے اور غریبوں کی کوئی بھلائی ہونے کی امید باندھی جاتی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ ابھی دو صدارتی مباحثےباقی ہیں اور حقائق ان کے ساتھ ہیں جِن کی مدد سے، بقول اخبار کے، وُہ اپنے مد مقابل کےبودے پن کی قلعی کھول سکتے ہیں، لیکن اس کے لئے انہیں جارحانہ وطیرہ اپنانا پڑے گا۔