امریکی صدر براک اوباما اور ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے اُن کے حریف مِٹ رومنی کے درمیان بدھ کی شام سال 2012ء کی امریکی صدارتی انتخابی دوڑ کے پہلے صدارتی مباحثے میں گرما گرم بحث دیکھنے میں آئی۔
مٹ رومنی نے اوباما انتظامیہ کی پالیسیوں بالخصوص صحت عامہ کے بارے میں ان کی پالیسی کو ہدف تنقید بنایا ۔
مسٹر اوباما نے اس تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے حریف نے خامیاں تو گنوائیں مگر اس کا کوئی متبادل تجویز نہیں کیا۔
مباحثے کے ایجنڈے میں داخلی معاملات اور معیشت بھی شامل تھے، اور جسے مختلف ٹیلی ویژن چینلز نے ریاست کولوراڈو میں یونیورسٹی آف ڈینور سے براہِ راست نشر کیا۔ ان چینلز کے اندازوں کے مطابق تقریباً پانچ کروڑ لوگوں نے یہ مباحثہ دیکھا۔
صدر اور مٹ رومنی 90 منٹ تک اس بات پر مباحثہ کرتے رہے کہ ملک کی کمزور معیشت کو کس طرح بہترین انداز میں مضبوط بنایا جائے۔
رومنی نے صدر اوباما کی معاشی پالیسیوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ موجودہ انتظامیہ کے ٹیکس منصوبے کی حمایت نہیں کریں گے۔
’’ٹیکس سے متعلق میرے منصوبے کے بارے میں جو بھی انہوں (صدر اوباما) نے کہا وہ سب کچھ سراسر غلط ہے۔ جو ٹیکس منصوبہ انہوں نے بتایا اگر مجھ سے کہا جائے کہ اس کی حمایت کروں تو میں کہوں گا ’کبھی نہیں‘۔ میں ٹیکس میں 5 کھرب ڈالرز کی کمی کا انتظار نہیں کروں گا۔‘‘
صدر اوباما نے کہا کہ ٹیکس کے نظام میں تبدیلی کارآمد نہ ہوگی۔
’’حقیقت یہ ہے کہ (ٹیکس) کی شرح کو اگر کم کیا گیا جیسے آپ (رومنی) بیان کررہے ہیں تو ممکن نہیں کہ اس سے خامیاں دور ہو جائیں۔‘‘
دونوں میں اوباما انتظامیہ کے ’ہلیتھ کئیر‘ پروگرام پر بھی بحث و مباحثہ ہوا۔
ریپبلیکن اُمیداوار نے کہا کہ اوباما کو ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے پر توجہ دینی چاہیئے تھی۔
’’بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے، معیشت بحران کا شکار اور بجائے امریکیوں کی نوکریوں کے انہوں نے اپنی توانائی اوباما ہیلتھ کیئر پر صرف کردی۔‘‘
صدر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جب انہوں نے اقتدار سنبھالا تو صحت عامہ کے مسائل کے حل پر کام کرنا اتنا ہی اہم تھا جتنا کہ روزگار کے وسائل پیدا کرنے پر توجہ کی ضرورت تھی۔
چھ نومبر کے انتخابات سے قبل خارجہ پالیسی پر مزید دو مباحثے ہوں گے۔
رائے عامہ کے نئے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ مسٹر اوباما کو مسٹر رومنی کے مقابلے میں فیصلہ کُن ریاستوں میں بہت ہی کم یا برابر کی سطح کی مقبولیت حاصل ہے، جہاں اگلے الیکشن کے دوران قسمت کا فیصلہ متوقع ہے۔
مسٹر رومنی ایک ارب پتی کاروباری شخص اور میساچیوسٹس کے سابق گورنر ہیں۔ اُن کی مقبولیت میں اُس وقت کمی واقع ہوئی جب اِسی ماہ کے آغاز میں ایک وڈیو سامنے آئی جس میں اُنھوں نے اپنے امیر حامیوں سے یہ کہا کہ47 فی صد امریکی ایسے ہیں جو صدر کو ووٹ دیں گے ’چاہے کچھ بھی ہوجائے‘، اور یہ کہ وہ کوئی ٹیکس نہیں دیتے اور اپنے آپ کو ’ستم زدہ‘ اور حکومتی امداد کا اہل گردانتے ہیں۔
مٹ رومنی نے اوباما انتظامیہ کی پالیسیوں بالخصوص صحت عامہ کے بارے میں ان کی پالیسی کو ہدف تنقید بنایا ۔
مسٹر اوباما نے اس تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے حریف نے خامیاں تو گنوائیں مگر اس کا کوئی متبادل تجویز نہیں کیا۔
مباحثے کے ایجنڈے میں داخلی معاملات اور معیشت بھی شامل تھے، اور جسے مختلف ٹیلی ویژن چینلز نے ریاست کولوراڈو میں یونیورسٹی آف ڈینور سے براہِ راست نشر کیا۔ ان چینلز کے اندازوں کے مطابق تقریباً پانچ کروڑ لوگوں نے یہ مباحثہ دیکھا۔
صدر اور مٹ رومنی 90 منٹ تک اس بات پر مباحثہ کرتے رہے کہ ملک کی کمزور معیشت کو کس طرح بہترین انداز میں مضبوط بنایا جائے۔
رومنی نے صدر اوباما کی معاشی پالیسیوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ موجودہ انتظامیہ کے ٹیکس منصوبے کی حمایت نہیں کریں گے۔
’’ٹیکس سے متعلق میرے منصوبے کے بارے میں جو بھی انہوں (صدر اوباما) نے کہا وہ سب کچھ سراسر غلط ہے۔ جو ٹیکس منصوبہ انہوں نے بتایا اگر مجھ سے کہا جائے کہ اس کی حمایت کروں تو میں کہوں گا ’کبھی نہیں‘۔ میں ٹیکس میں 5 کھرب ڈالرز کی کمی کا انتظار نہیں کروں گا۔‘‘
صدر اوباما نے کہا کہ ٹیکس کے نظام میں تبدیلی کارآمد نہ ہوگی۔
’’حقیقت یہ ہے کہ (ٹیکس) کی شرح کو اگر کم کیا گیا جیسے آپ (رومنی) بیان کررہے ہیں تو ممکن نہیں کہ اس سے خامیاں دور ہو جائیں۔‘‘
دونوں میں اوباما انتظامیہ کے ’ہلیتھ کئیر‘ پروگرام پر بھی بحث و مباحثہ ہوا۔
ریپبلیکن اُمیداوار نے کہا کہ اوباما کو ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے پر توجہ دینی چاہیئے تھی۔
’’بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے، معیشت بحران کا شکار اور بجائے امریکیوں کی نوکریوں کے انہوں نے اپنی توانائی اوباما ہیلتھ کیئر پر صرف کردی۔‘‘
صدر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جب انہوں نے اقتدار سنبھالا تو صحت عامہ کے مسائل کے حل پر کام کرنا اتنا ہی اہم تھا جتنا کہ روزگار کے وسائل پیدا کرنے پر توجہ کی ضرورت تھی۔
چھ نومبر کے انتخابات سے قبل خارجہ پالیسی پر مزید دو مباحثے ہوں گے۔
رائے عامہ کے نئے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ مسٹر اوباما کو مسٹر رومنی کے مقابلے میں فیصلہ کُن ریاستوں میں بہت ہی کم یا برابر کی سطح کی مقبولیت حاصل ہے، جہاں اگلے الیکشن کے دوران قسمت کا فیصلہ متوقع ہے۔
مسٹر رومنی ایک ارب پتی کاروباری شخص اور میساچیوسٹس کے سابق گورنر ہیں۔ اُن کی مقبولیت میں اُس وقت کمی واقع ہوئی جب اِسی ماہ کے آغاز میں ایک وڈیو سامنے آئی جس میں اُنھوں نے اپنے امیر حامیوں سے یہ کہا کہ47 فی صد امریکی ایسے ہیں جو صدر کو ووٹ دیں گے ’چاہے کچھ بھی ہوجائے‘، اور یہ کہ وہ کوئی ٹیکس نہیں دیتے اور اپنے آپ کو ’ستم زدہ‘ اور حکومتی امداد کا اہل گردانتے ہیں۔