پاکستان میں توہینِ مذہب ایک حساس معاملہ ہے جس کی قانون کے مطابق سزا موت ہے۔ ایک عرصے سے مختلف سماجی حلقوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے یہ مطالبات سامنے آتے رہے ہیں کہ اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے اس پر نظر ثانی کی جانی چاہیے۔
صوبہ سندھ میں پیش آنے والے ایک حالیہ واقعے کے بعد بھی یہ مطالبہ دہرایا جارہا ہے جس میں سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو کی بنا پر دو خواتین سمیت چار افراد کے خلاف توہینِ مذہب کے قانون کی دفعہ 295-اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
جامشور کے علاقے خانوٹ کی پولیس نے یہ کارروائی جس ویڈیو کی بنیاد پر کی اس میں ایک خاتون نایاب سرکش ایک جوڑے کا نکاح "شریعتِ لطیفی" (صوفی بزرگ شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی کا ضابطہ) کے تحت کروا رہی ہیں۔
پولیس نے نایاب سرکش، دولہا، دلہن اور دلہن کے والد کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے بعد دلہن کے والد کو گرفتار کر لیا ہے۔
اس وڈیو میں دلہن کے والد نایاب سرکش کو بطور نکاح خواں متعارف کراتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ شاہ عبدالطیف بھٹائی کا کلام پڑھ کر نکاح کرائیں گی جو سندھی میں ہو گا اور یہ عمل ان کےبقول "شریعتِ لطیفی" کے مطابق ہو گا۔
مقدمے کے لیے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ یہ اقدام شریعتِ محمدی کے خلاف ہے جس سے لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے۔
تاہم بعد ازاں یہ معلوم ہوا کہ جوڑے کا نکاح شرعی طریقے سے پہلے ہی ہو چکا تھا اور یہ اقدام رسماً کیا گیا جس میں ملزمان کے مطابق "شریعتِ لطیفی" کے الفاظ سہواً ادا ہوئے۔
ملزمان کے وکیل کے مطابق سندھ ہائی کورٹ کے حیدرآباد بینچ نے اس مقدمے پر کارروائی روکنے کا حکم دے دیا ہے لیکن اس معاملے پر سوشل میڈیا پر بحث شروع ہو گئی ہے۔
سندھی دانشور اور حقوق انسانی کے سرگرم کارکن جامی چانڈیو نے پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مذہب اور پیغمبروں کی توہین کسی صورت برداشت نہیں کی جا سکتی لیکن یہ امر تشویش کا باعث ہے کہ ایسے معاملات کو لوگ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دوسروں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔
"جب دونوں خاندانوں نے برملا معافی مانگ لی، انھوں نے سوشل میڈیا پر وضاحت کی کہ ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا، غلطی سے ایک لفظ ہماری زبان سے نکل گیا جس کی ہم معافی مانگتے ہیں تو یہ معاملہ نہیں اٹھنا چاہیے تھا۔ لیکن یہ مذہبی جماعتیں ہر معاملے کو مذہبی رنگ دے کر اس پر ریاست اور حکومت کے بجائے اپنی اجارہ داری چاہتی ہیں۔ لاڑکانہ کے مدرسے والوں اس پر ہراساں کرنا شروع کر دیا تو پھر ہم سماجی کارکنوں نے بھی آواز اٹھائی۔"
ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں قانون سازی بہت ضروری ہے کہ کسی کو غلط طریقے سے توہینِ مذہب کے الزام میں ملوث کرنے والوں کو بھی وہی سزا دی جانی چاہیے جو اس کے مرتکب افراد کے لیے ہے۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ رواں سال ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت صدیقی نے بھی توہینِ مذہب کے ایک مقدمے کے فیصلے میں ریمارکس دیے تھے کہ پارلیمان کو چاہیے کہ وہ توہینِ مذہب کا غلط الزام لگانے والوں کے لیے بھی ایسی ہی سخت سزا دینے کے لیے قانون سازی کرے۔
گزشتہ ہفتے ہی صوبہ خیبرپختونخوا میں ہری پور کے علاقے کوٹ نجیب اللہ کے ایک شخص پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پر توہینِ مذہب پر مبنی مواد شائع کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
پولیس کے مطابق اس شخص کے علاقے کے لوگوں نے اس کے خلاف درخواست دی تھی جس پر مقدمہ درج کر کے ملزم کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔
ملزم کو بعد ازاں عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں جج نے اس کی درخواست ضمانت منظور کر لی تھی۔