رسائی کے لنکس

سپریم کورٹ: توہینِ مذہب کے ملزم کی ضمانت منظور


فائل
فائل

سپریم کورٹ نے یہ ریمارکس پیر کو توہینِ رسالت کے ایک مبینہ ملزم کی درخواستِ ضمانت کی سماعت کے دوران دیے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کا کہنا ہے کہ ایک سابق ڈکٹیٹر نے معاشرے میں عدم برداشت کو تقویت دی، سنی سنائی بات پر لوگ خود ہی درخواست گزار، استغاثہ اور خود ہی جج بن جاتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے یہ ریمارکس پیر کو توہینِ مذہب کے ایک مبینہ ملزم کی درخواستِ ضمانت کی سماعت کے دوران دیے۔

مقدمے کی سماعت کرنے والے جسٹس دوست محمد کا کہنا تھا کہ بظاہر ملزم مروت حسین نے توہینِ رسالت نہیں کی۔ فاضل جج نے ملزم کی ضمانت کی درخواست ایک لاکھ روپے مالیت کے مچلکوں کے عوض منظور کرلی۔

ملزم مروت حسین کو 2012ء میں پولیس نے راولپنڈی کے علاقے گلزارِقائد سے گرفتار کیا تھا۔

مروت حسین پر الزام تھا کہ ایک شخص کی میت کو غسل دینے کے معاملہ پر اس نے مبینہ طور پر توہین آمیز کلمات ادا کیے تھے اور حدیث بیان کرتے ہوئے غلط الفاظ کا استعمال کیاتھا۔

مروت حسین کے خلاف ناموسِ رسالت کے قانون کی دفعہ 295 (سی) کے تحت تھانہ ائیرپورٹ میں ایف آئی آر درج کی گئی تھی جس پر ٹرائل کورٹ نے ملزم کو عمر قید کی سزا سنا ئی تھی۔

پیر کو ملزم کی فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج جسٹس دوست محمد نے ریمارکس دیے کہ ایک سابق ڈکٹیٹر نے ملک میں عدم برداشت کو تقویت دی اور اداروں کے ذمہ داری قبول کرنے تک یہ عدم برداشت بڑھتی رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ اب لوگ قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور بدقسمتی سے اساتذہ بچوں کو درست سانچے میں نہیں ڈھال رہے۔

فاضل جج کا مزید کہنا تھا کہ بدقسمتی سے تمام اداروں کے لوگ صرف باتوں سے تبدیلی کی کوشش کرتے ہیں حالاں کہ محض وعدوں اور تقریریوں سے معاشرہ میں تبدیلی نہیں آسکتی۔

ملزم کے وکیل ذوالفقار عباس شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفت گو میں بتایا کہ ان کے موکل کے مقدمے سمیت توہینِ رسالت یا توہینِ مذہب کے بیشتر مقدمات میں اصل مسئلہ برداشت کی کمی کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسے مقدمات میں عام لوگوں کو مشتعل کیا جاتا ہے اور پولیس سمیت عدلیہ پر بھی دباؤ بڑھا دیا جاتا ہے جس کے بعد پولیس اور ماتحت عدلیہ مشتعل لوگوں کی مرضی کے مطابق فیصلے سنا دیتی ہے۔

پاکستان میں ناموسِ رسالت کے قانون کے حوالے سے کئی حلقے تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں لیکن مذہبی حلقوں کی شدید مخالفت کے باعث ماضی میں اس قانون میں ترامیم کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ مذکورہ قانون کے غلط اور انتقامی کارروائیوں کے لیے استعمال کیے جانے کی مثالیں موجود ہیں۔

XS
SM
MD
LG