پاکستان کی تاریخ کے بدترین سیلاب کا آغاز جولائی کے اواخر میں ہوا اور تین ماہ گز ر جانے کے باوجود ملک کے کئی حصوں بالخصوص جنوبی صوبہ سندھ میں زرعی اراضی سمیت وسیع رقبے پر اب بھی پانی کھڑا ہے اور سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ بعض علاقوں میں یہ صورتحال آئندہ چھ ماہ تک برقرار رہے گی۔
ان ہی حالات کے پیش نظر اقوام متحدہ کے عہدیداروں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگر متاثرین کو باقاعدگی سے صاف پانی، خوراک اور طبی سہولتوں کی فراہمی جاری نا رکھی گئی تو ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
حال ہی میں سندھ کے مختلف علاقوں کا دورہ کرنے والی اقوام متحدہ کی اہلکار سٹیسی ونسٹن نے وائس آف امریکہ کو بتایا ”شاید بعض لوگوں کے لیے یہ بات باعث حیرت ہو کہ کچھ دیہات اب بھی پانی میں گھرے ہوئے ہیں اور جزیروں کا منظر پیش کر رہے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے جس کا مقامی لوگوں کو سامنا ہے“۔
اُنھوں نے بتایا کہ بعض علاقوں میں اب بھی مکانات میں تین تین فٹ سیلابی پانی کھڑا ہے جو معمولات زندگی کی بحالی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
ملک میں حالیہ سیلاب سے دو کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے اور امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سولہ لاکھ گھروں کے تباہ ہونے یا ان کو جزوی نقصان پہنچنے کی وجہ سے اس وقت لگ بھگ ستر لاکھ افراد کے پاس سر چھپانے کی جگہ نہیں جب کہ موسم سرما شروع ہونے کو ہے جس کے بعد صورتحال مزید تشویش ناک ہو جائے گی۔
امدادی کارروائیوں میں شریک ایک بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم ’اکسفام‘ نے اس تاثر کو رد کیا ہے کہ پاکستان کو اب عالمی امداد کی ضرورت نہیں کیوں کہ تنظیم کا کہنا ہے کہ ”یہ بحران کسی بھی صورت میں ختم نہیں ہوا“۔
اکسفام کی ترجمان کیرالائن گلک (Caroline Gluck) نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں بتایا جہاں لاکھوں افراد کو شدید سردی سے محفوظ رکھنے والے عارضی ٹھکانوں کی ضرورت ہے وہیں متاثرہ علاقوں میں سیلاب زدگان کے نظام تنفس سے متعلق بیماریوں میں مبتلا ہونے کے علاوہ ان علاقوں میں آلودہ پانی کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریوں، جیسے کے ہیضہ، ملیریا اور ڈینگی بخار، کے پھوٹ پڑنے کا اندیشہ بدستور برقرار ہے۔
اکسفام کے مطابق محدود وسائل کی وجہ سے ایک طرف اقوام متحدہ کا عالمی ادارہ صحت آئندہ ماہ سے طبی صورتحال کا جائزہ لینے والے اہلکاروں کی تعداد میں کمی کرنے پر غور کر رہا ہے وہیں خوراک کی عالمی تنظیم ڈبلیو ایف پی کو اس وجہ سے خوراک کی تقسیم میں کمی لانا ہوگی۔