پاکستانی فورسز کا جنوبی وزیرستان میں اہم کمانڈر سمیت آٹھ عسکریت پسندوں کی ہلاکت کا دعویٰ

پاکستان کے افغانستان سے ملحقہ قبائلی علاقوں جنوبی اور شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی حکام نے دو مختلف کارروائیوں میں نو عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق "جنوبی وزیرستان کے علاقے شین ورسک میں ہونے والی فائرنگ کے تبادلے میں آٹھ دہشت گرد ہلاک ہوئے جس میں کمانڈر جان محمد عرف چرغ بھی شامل ہے۔"

کالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) نے بھی اس علاقے میں ہونے والے تبادلے کی تصدیق کی ہے۔ ٹی ٹی پی نے کہا ہے کہ اس کے چار ساتھی ہلاک ہوئے ہیں جب کہ سیکیورٹی فورسز کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچا ہے۔

حکام کے مطابق فائرنگ کے تبادلے میں پاکستان فوج کا ایک سپاہی حامد رسول ہلاک جب کہ دو افسران سمیت چار اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔

ادھر مقامی انتظامیہ اور سیکیورٹی عہدیداروں نے جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ شین ورسک کے قریب علاقے گنگی خیل میں خفیہ معلومات کی بنیاد پر سیکیورٹی فورسز نے آپریشن کرکے آٹھ دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔ اس کارروائی کے دوران متعدد عسکریت پسند زخمی بھی ہوئے ہیں۔

SEE ALSO: لکی مروت: عسکریت پسندوں کے حملے میں ڈی ایس پی سمیت چار پولیس اہلکار ہلاک

حکام کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں نے اپنی کمین گاہ کو زیرِزمین کھدائی کے بعد ایک غار میں تبدیل کیا ہوا تھا۔ فورسز کے کارروائی کے دوران اس مقام کو گھیرے میں لیا۔

اطلاعات کے مطابق مبینہ دہشت گردوں نے سیکیورٹی فورسز کے ساتھ تقریباً 10 تک مزاحمت کی اور مقامی آبادی میں چھپنے کی بھی کوشش کی۔

فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک مبینہ دہشت گردوں میں اہم کمانڈر جان محمد عرف چرغ بھی شامل ہے جس کا تعلق ٹی ٹی پی طور حافظ گروپ سے بتایاجاتا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ کارروائی کے دوران مارے جانے والے دہشت گردوں کے زیرِاستعمال اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد ہوا ہے۔ ہلاک دہشت گرد سیکیورٹی فورسز کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں اور شہریوں کے قتل میں سرگرم رہے۔

ادھر شمالی وزیرستان کے علاقے گڑی یوم میں مقامی بھی ایک کارروائی میں ایک مبینہ عسکریت پسند کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

مقامی سیکیورٹی عہدےد اروں کے مطابق ایک سرحدی چوکی پر منگل اور بدھ کی درمیانی شب عسکریت پسندوں نے حملہ کیا جسے پسپا کردیا گیا۔ اس دوران ایک عسکریت پسند ہلاک اور دو زخمی ہوئے۔

تاہم اس علاقے میں ذرائع ابلاغ کو رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ان دعووں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔

آئی ایس آئی افسر کی ہلاکت کے بعد پہلی بڑی کارروائی

رواں سال مارچ کے آخر میں اعظم ورسک سے وانا آتے ہوئے عسکریت پسندوں کے مبینہ حملے میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس کے بریگیڈیئر مصطفیٰ کمال برکی کی ہلاکت کے بعد اس علاقے میں فورسز کی یہ پہلی بڑی کارروائی ہے۔

SEE ALSO: ٹی ٹی پی میں مزید گروپس کی شمولیت، دہشت گردی بڑھنے کے خدشات

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی دلاور وزیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وانا میں انتظامی اور سیکیورٹی عہدے داروں شین ورسک میں ہونے والی کارروائی کے بارے میں ایک جیسے ہی بیانات دے رہے ہیں۔ مگر اس علاقے میں عام لوگوں کی رسائی نہ ہونے کے برابر ہے۔

انہوں نے کہا کہ جنوبی وزیرستان کے افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقوں میں مبینہ عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ عسکریت پسند وقتاً فوقتاً سیکیورٹی فورسز اور عام لوگوں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔

سینئر سیکیورٹی تجزیہ کار اور سابق سیکریٹری داخلہسید اختر علی شاہ کا کہنا ہے کہ جب تک سیکیورٹی اور دیگر ریاستی ادارے عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیےایک متفقہ لائحہ عمل اپنانے اور اس پر عمل کرنے پر متفق نہیں ہوتے تب تک عسکریت پسندوں کے خاتمے کے دعوے بے بنیاد ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کی موجودہ صورتِ حال کے پیش نظر عسکریت پسندی کے رحجان میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو یقیناً پاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا کے لیے خطرناک ہے۔