نیٹ فلکس پر موجود مشہور ٹی وی شوز 'منی ہائیسٹ' اور 'اسکوئڈ گیم' میں بھارتی اداکاروں کو بطور پاکستانی کاسٹ کرنے پر سوشل میڈیا پر کئی پاکستانی صارفین نے ناگواری کا اظہار کیا ہے۔
اسپینش سیریز 'منی ہائیسٹ' میں پاکستانی ہیکر شاکر کا کردار بھارتی اداکار اجے جیٹھی نے ادا کیا ہے۔ اسی طرح انوپم تریپاتھی نے پاکستان سے تعلق رکھنے والے عبدل علی کا کردار ادا کر کے سب سے داد سمیٹی۔
پاکستانی کرداروں کے لیے بھارتی اداکاروں کی خدمات لینے پر معروف پاکستانی اداکار احمد علی بٹ نے انسٹاگرام کا سہارا لے کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
احمد علی بٹ کے مطابق اب وقت آگیا ہے کہ پاکستانی کرداروں کے لیے پاکستانی اداکاروں کو استعمال کیا جائے۔
ان کی پوسٹ کے جواب میں اداکار و ہدایت کار شمعون عباسی کا کہنا تھا کہ پاکستان کو عالمی معیار کا کام کرنا ہوگا تاکہ انٹرنیشنل پلیٹ فارم پر پاکستانی اداکاروں کی مانگ میں اضافہ ہو۔
پاکستان کی فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے اداکاروں کا کہنا ہے کہ وہ بھی عالمی سطح پر کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
دنیا کے کئی معروف اور غیر معروف اداکار پاکستانی فلموں میں کام کر چکے ہیں۔ کئی نے تو بھارت میں اپنے ڈیبیو سے قبل پہلے پاکستانی فلم میں کام کیا اور اس کے بعد بھارت میں نام کمایا۔
سن 1947 میں قیامِ پاکستان سے قبل لاہور کو برصغیر کی فلم انڈسٹری کا اہم ستون سمجھا جاتا تھا۔ تاہم تقسیم ہند کے بعد جہاں زیادہ تر مسلم اداکاروں، پروڈیوسرز اور ہدایت کاروں نے لاہور آنے کا فیصلہ کیا وہیں غیر مسلم فن کاروں نے بمبئی میں رہنے کو ترجیح دی۔
پاکستان کی پہلی فلم 'تیری یاد' کے ہیرو ناصر خان بھی بھارت سے پاکستان آئے تھے۔ لیکن دو ناکام فلموں میں کام کرنے کے بعد وہ واپس بھارت چلے گئے جہاں ان کے بڑے بھائی دلیپ کمار کامیابیاں سمیٹنے میں مصروف تھے۔
سن 1956 میں ریلیز ہونے والی فلم 'انوکھی' آج گلوکار احمد رشدی اور کامیڈین لہری کے ڈیبیو کی وجہ سے جانی جاتی ہے۔ لیکن اس کی ریلیز کے وقت فلم کی کامیابی کا دار و مدار صرف بالی وڈ اداکار شیلا رامانی پر تھا۔ جنہوں نے اس سے قبل اداکار دیوآنند کی فلم 'ٹیکسی ڈرائیور' میں اداکاری کی تھی۔
فلم کا گانا 'گاڑی کو چلانا بابو' تو بے حد مقبول ہوا لیکن فلم نہ چل سکی، جس کے بعد شیلا رامانی واپس بھارت چلی گئیں جہاں انہوں نے ہٹ فلموں میں کام تو کیا لیکن ان کا کریئر اس طرح پروان نہ چڑھ سکا جس کی انہیں امید تھی۔
بھارت ہی سے ایک اور اداکارہ مینا شوری بھی اسی زمانے میں پاکستان آئیں، جہاں ان کے شوہر روپ کے شوری فلم 'مس 1956' بنانے میں مصروف تھے۔ فلم کی کامیابی کے بعد انہوں نے پاکستان میں ہی قیام کا فیصلہ کیا، لیکن ان کی مزید آنے والی فلمیں زیادہ کامیاب نہ ہوسکیں۔
بھارتی ادکارہ نندیتا داس نے سن 2008 میں ہدایت کارہ مہرین جبار کی فلم 'رام چند پاکستانی' میں کام بھی کیا اور داد بھی سمیٹی۔
ان کی اس فلم میں اداکاری سے زیادہ ان کی شرکت بڑا قدم تھا۔ کیوں کہ اُس وقت پاکستان میں نہ تو فلمیں بن رہی تھیں اور نہ ہی سنیما کلچر کی واپسی کا کوئی امکان تھا۔
گزشتہ بیس برسوں میں کئی بھارتی اداکاروں اور اداکاراؤں نے پاکستانی فلموں میں کام کیا ہے جس میں اداکار عدنان خان (محبتاں سچیاں، شور شرابا)، نیہا دھپیا (کبھی پیار نہ کرنا) اور جونی لیور (عشق میں گم) شامل ہیں۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی فلم باکس آفس پر کامیاب نہ ہو سکی۔
کامیابی اگر نصیب ہوئی تو اداکار نصیرالدین شاہ اور اوم پوری کو، جنہوں نے ششی کپور کی طرح بھارت میں نام کمانے کے بعد پاکستان کا رخ کیا۔
نصیر الدین شاہ نے شعیب منصور کی فلم 'خدا کے لیے' میں ایک قابل احترام مولانا کا کردار ادا کر کے سب کو حیران کیا۔ اس کے بعد انہوں نے مزید دو پاکستانی فلموں 'زندہ بھاگ' اور 'جیون ہاتھی' میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔
ان کے ہم عصر اوم پوری نے بھی فلم 'ایکٹر ان لا' میں فہد مصطفیٰ کے والد کا کردار ادا کیا اور بالی وڈ اور ہالی وڈ کے بعد پاکستان میں بھی اپنے مداحوں کو خوب محظوظ کیا۔
فلم 'لوڈ ویڈنگ' میں بھی ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہدایت کار نبیل قریشی اور پروڈیوسر فضا علی مرزا نے ان کی تصویر سجا کر انہیں بطور ایک کردار پیش کیا۔
فلم 'جناح' کو ایک پاکستانی فلم نہیں کہا جائے گا۔ لیکن اس کے پروڈیوسر پاکستانی تھے اور اس میں زیادہ تر اداکار بھی۔ اس لیے ششی کپور کو اس فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے جنہوں نے بانیٔ پاکستان محمد علی جناح کی زندگی پر بننے والی فلم میں 'راوی' کا کردار ادا کیا تھا۔
پاکستانی پراجیکٹ کے ذریعے فلموں میں قدم رکھنے والی بھارتی اداکارائیں
سن 1961 میں فلم 'لاکھوں فسانے' میں درپن کے مدمقابل کام کرنے والی ہیروئن وملا کماری ہوں یا پھر سن 2019 میں جاوید شیخ کی 'وجود' میں ولن کا کردار ادا کرنے والی ادیتی سنگھ۔ بالی وڈ سے اداکاراؤں کا پاکستان آکر کام کرنا آج بھی جاری ہے۔ لیکن پاکستان میں فلم ڈیبیو کر کے بھارت میں نام بنانے کی مثال بہت کم ملتی ہے۔
فلم 'خاموش پانی' کے ذریعے جہاں بھارتی اداکارہ کرن کھیر نے اپنا لوہا منوایا۔ وہیں اداکارہ شلپا شکلا نے بھی سن 2003 میں اسی فلم کے ذریعے ڈیبیو کیا۔ ان کی دو کامیاب فلمیں 'چک دے انڈیا' اور 'بی اے پاس' بعد میں ریلیز ہوئیں۔
اداکارہ ریما خان نے اپنی ہدایت کاری میں بننے والی فلم 'کوئی تجھ سا کہاں' میں غیر معروف بھارتی اداکارہ سمرن کو متعارف کیا۔ اسی طرح فلم 'میں ایک دن لوٹ کے آؤں گا' میں بھارتی ٹی وی کی اداکارائیں نوشین علی سردار اور پوجا کنول نے فلم ڈیبیو کیا جس کے بعد انہوں نے اپنے ملک میں فلموں میں کام کیا۔
بھارتی ٹی وی شو 'سیکرڈ گیمز' میں مرکزی کردار ادا کرنے والی اداکارہ الناز نوروزی نے مذکورہ ویب سیریز میں کام کرنے سے ایک سال قبل پاکستانی فلم 'مان جاؤ نا' کے ذریعے فلم انڈسٹری میں قدم رکھا تھا۔
'مان جاؤ نا' میں ان کے مدمقابل ہیرو عدیل چوہدری تھے۔ فلم میں ان کی اداکاری کو سب نے بے حد سراہا تھا۔ پاکستان میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ہی ایران سے تعلق رکھنے والی اس اداکارہ کو بھارت میں شہرت ملی اور رواں برس 'ہیلو چارلی' نامی فلم کے ذریعے انہوں نے بالی وڈ ڈیبیو کیا۔
پاکستان میں مقبولیت پانے والی ایران، نیپال، بنگلا دیش اور سری لنکا کی اداکارائیں
سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان کی فلم انڈسٹری کو ایک ایسا دھچکا لگا تھا جس سے اسے سنبھلنے میں کئی سال لگے۔ اسّی کی دہائی میں جب جنوبی ایشیا کے ممالک نے ایک دوسرے کے ساتھ کو پروڈکشن کا آغاز کیا تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہوا۔
کو پروڈکشن کے آغاز سے پہلے کئی غیر ملکی اداکاراؤں نے پاکستانی فلموں میں کام کر کے نہ صرف مقامی شائقین کو اپنا مداح بنالیا تھا بلکہ اپنا لوہا بھی منوایا تھا۔
ایرانی اداکارہ ترانہ کا فلمی کریئر پاکستان میں دو دہائیوں پر مشتمل رہا جس کے دوران انہوں نے متعدد فلموں میں کام کیا۔
ان کی کامیاب فلموں میں 'سکھ کا سپنا'، 'کالا پانی'، 'دامن'، 'کارواں'، 'ساگر'، 'قبیلہ'، 'جان پہچان'، 'سجدہ 'اور 'آپریشن کراچی' شامل ہیں۔
انہی کی ہم وطن شاہ پارا نے ساٹھ کی دہائی میں فلم 'جان پہچان' کے ذریعے پاکستانی فلموں میں قدم رکھا لیکن وہ زیادہ عرصے کام نہ کرسکیں۔
اسّی کی دہائی میں کوپروڈکشن فلموں کے آغاز کے بعد سری لنکن اداکارہ سبیتا پاکستان میں سب سے کامیاب رہیں۔ انہوں نے ندیم، جاوید شیخ اور محمد علی جیسے اداکاروں کے ساتھ کام کرتے ہوئے 'کبھی الوداع نہ کہنا'، 'بوبی'، روبی' جیسی ہٹ فلمیں دیں۔
اس زمانے میں سبیتا کو پاکستانی اداکاراؤں شبنم اور بابرہ شریف کا ہم پلہ سمجھا جاتا تھا۔
سن 1971 میں پاکستانی فلم 'جلتے سورج کے نیچے' سے اپنے کریئر کا آغاز کرنے والی بنگلہ دیشی اداکارہ ببیتا کو فلم 'نادانی' کے بعد لوگ 'مس لنکا' کے نام سے جاننے لگے تھے۔ کیوں کہ اداکار فیصل رحمان کے ساتھ ان کا گانا 'لوٹا قرار میرے من کا' بے حد مقبول ہوا تھا۔
سری لنکن اداکارہ انوجا ہوں، یا بنگلہ دیش کی سنیترا یا نوتن۔ سب نے ہی اسّی کی دہائی میں پاکستانی شائقین کو اپنی اداؤں اور اداکاری سے محظوظ رکھا۔
نیپالی اداکارہ سشما شاہی پاکستان آکر یہیں کی ہو کر رہ گئیں۔ انہوں نے نہ صرف 'زمین آسمان'، 'لاوا'، 'ٹائیگر' اور 'آندھی' جیسی فلموں میں کام کیا بلکہ ہدایت کار اقبال کشمیری سے شادی بھی کی۔
چالیس سال قبل ریلیز ہونے والی ہدایت کار نذرالاسلام کی سپر ہٹ فلم 'بندش' میں جہاں ندیم اور شبنم کی اداکاری کو سب نے پسند کیا۔ وہیں انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والی ڈیانا کرسٹینا بھی سب کو یاد ہیں۔ انہوں نے فلم میں ندیم کی دوسری بیوی کا کردار ادا کیا تھا اور ان پر فلمائے گئے تمام ہی گانے شائقین کو آج بھی یاد ہیں۔
ماڈلنگ سے اداکاری کی طرف آنے والی رخشندہ خٹک نے 'آپریشن کراچی' میں اپنی اداکاری کے ذریعے اپنے مداحوں کی تعداد میں اضافہ کیا تھا۔ ان کے والد کا تعلق تو پاکستان سے تھا لیکن ان کی والدہ برما سے تھیں۔
رخشندہ نے صرف ایک ہی فلم میں کام کرنے کے بعد انڈسٹری کو خیرباد کہہ دیا تھا لیکن ان کے چاہنے والے انہیں آج بھی نہیں بھولے۔
جب غیر ملکی حسیناؤں نے بھی لالی وڈ میں اداکاری کے جوہر دکھائے
صرف ایشیائی ممالک کی اداکاراؤں اور اداکاروں نے پاکستانی فلموں میں کام کر کے شہرت نہیں سمیٹی بلکہ دنیا کے مختلف ملکوں سے اداکار پاکستان آکر کام کر چکے ہیں۔
اسّی کی دہائی میں انگلینڈ اور ترکی کی اداکاراؤں نے جہاں پاکستانی فلموں میں اپنے جلوے بکھیرے وہیں نئی صدی میں اسکاٹ لینڈ سے بھی اداکارہ نے لالی وڈ کا رخ کیا۔
ہدایت کار نذر الاسلام کی فلم 'لو اسٹوری' سے اپنے کریئر کا آغاز کرنے والی پاکستان برطانوی اداکارہ لیلیٰ نے صرف دو ہی فلموں میں اداکاری کی۔ اسی طرح ترکی کی مشہور اداکارہ نازاں سانچی نے بھی متعدد پاکستانی فلموں میں کام کیا جن میں 'ہلچل'، 'بدلہ'، 'تلاش'، اور 'زنجیر' قابلِ ذکر ہیں۔
مصری اداکارہ فائزہ کمال نے پاکستان اور مصر کے اشتراک سے بننے والی فلم 'سونے کی تلاش' میں کام کیا تو میڈلین ہینا نے 'ڈانس کہانی' میں مرکزی کردار ادا کر کے سب کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔
یہاں تک کے سعید رضوی کی پاکستان اور روس کے اشتراک سے بننے والی سائنس فکشن فلم 'طلسمی جزیرہ' میں بھی روسی اداکارائیں وکٹوریہ اور اینا حسن نے بہترین اداکاری کی۔
سن 2013 میں ریلیز ہونے والی پنجابی فلم 'عشق خدا ' میں جہاں احسن خان اور شان نے مرکزی کردار ادا کیا۔ وہیں مراکش سے تعلق رکھنے والی وائم داہمانی نے بھی فلم میں اداکاری کی۔ چونتیس سال کی عمر میں اس اداکارہ کا انتقال ہوگیا تھا۔
کئی نامور اداکار بھی پاکستانی فلموں میں ایکشن میں نظر آئے
کسی پاکستانی فلم میں انٹرنیشنل اداکاروں کی موجودگی کی جب بھی بات ہوگی تو 'جناح' فلم کا ذکر آئے گا جس میں کرسٹوفر لی سمیت کئی انگلش اداکاروں نے کام کیا تھا/ یہ فلم پاکستان اور برطانیہ کے اشتراک سے بنی تھی۔
سن 2004 میں ہدایت کار رؤف خالد کی 'لاج' میں تین انگلش اداکاروں جیمز کواز، پیٹ کیلمین اور فلر نے اداکاری کی تھی۔
بھارتی فلم 'لگان' کے طرز پر بننے والی یہ پاکستان کی انوکھی کوشش تھی جو باکس آفس پر ناکام ہوئی تھی۔
اس سے قبل 1971 میں ریلیز ہونے والی فلم 'ٹائیگر گینگ' پاکستان، مغربی جرمنی اور اٹلی کی کوپروڈکشن فلم تھی جسے 'ایف بی آئی آپریشن کراچی' کے نام سے انٹرنیشنل مارکیٹ میں ریلیز کیا گیا تھا۔
اس فلم میں اطالوی اداکار ٹونی کینڈل اور امریکی ایکٹر بروڈ ہیرس نے انٹرپول کے افسران کا کردار ادا کیا تھا۔
یہاں یہ بات بھی بتانا بھی ضروری ہے اسّی کی دہائی میں جب پاکستان نے بھارت کے سوا تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ کو پروڈکشن کیں، تو نیپال کے سپر اسٹار شیوا پاکستان کے سپر اسٹار بھی بن گئے تھے۔
ان کی مشہور فلموں میں 'ہم سے ہے زمانہ'، 'زمین آسمان'، 'ہم ایک ہیں'، 'مس بنکاک'، 'لاوا' اور 'چوروں کی بارات' شامل تھیں۔
بنگلہ دیشی اداکاروں احمد شریف اور الیاس کنچن نے بھی 'زمین آسمان'، 'لیڈی کمانڈو'، 'ہم ایک ہیں' اور 'ڈسکو دیوانے' میں اپنا جادو جگایا اور ان کی فلمیں باکس آفس پر بھی کامیاب ہوئیں۔
'گاڈ فادر'، 'سلطنت' جیسی انڈو پاک فلموں میں بالی وڈ اسٹارز کی بھرمار
ویسے تو پاکستان اور بھارت نے مشترکہ فلمیں نہیں بنائیں لیکن دبئی میں مقیم ہونے کی وجہ سے پروڈیوسر اسلم بھٹی نے دو ایسی فلمیں بنائیں جس میں کئی بھارتی اداکاروں نے کام کیا تھا۔
سن 2007 میں ریلیز ہونے والی ان کی فلم 'گاڈ فادر' میں جہاں معروف اداکار ونود کھنہ نے مرکزی کردار ادا کیا تھا وہیں اداکار سلمان خان کے بھائی ارباز خان، 'محبتیں' سے شہرت پانے والی کم شرما اور پریتی جھانگیانی، اور متعدد فلموں میں کام کرنے والی نفیسہ علی، ہریشیتا بھٹ اور امریتا ارورا نے اداکاری کی۔
اسلم بھٹی کی دوسر ی فلم'سلطنت' سن 2014 میں ریلیز ہوئی جس میں اداکار شویتا تیواری، اچنت کور، گووند نمدیو، آکاش دیپ سہگل، چیتن ہنس راج اور دیپک شرکے ایکشن میں نظر آئے۔
دونوں فلمیں باکس آفس پر بری طرح ناکام ہوئیں لیکن اس کے باوجود پاکستانی فلم سازوں کی بھارتی اداکاروں سے محبت کم نہ ہوئی۔
بھارتی اداکاروں کے ساتھ کامیاب فلم کا تجربہ صرف دو فلم سازوں کو ہوا اور دونوں ہی فلموں میں اداکار کنول جیت سنگھ شامل تھے۔ انہوں نے سن 2010 میں انڈو پاک پنجابی فلم 'ورثہ' میں اداکاری کی جس میں معروف بھارتی اداکار راج ببر کے صاحبزادے آریا ببر کے ساتھ ساتھ گلشن گروور بھی شامل تھے۔
سن 2018 میں ریلیز ہونے والی اب تک کی سب سے کامیاب پاکستانی فلم 'جوانی پھر نہیں آنی ٹو' میں بھی کنول جیت سنگھ نے ہیروئن کبریٰ خان کے والد کا کردار ادا کیا تھا، جو صرف پاکستان کرکٹ ٹیم سے نفرت کی وجہ سے اپنی بیٹی کی شادی ایک پاکستانی لڑکے سے نہیں کرتا۔
مقبول کامیڈی فلم 'انداز اپنا اپنا' سے شہرت حاصل کرنے والے شہزاد خان بھی اس فلم کا حصہ تھے۔ بالی وڈ اداکارہ کونیکا نے کنول جیت سنگھ کی اہلیہ اور کبریٰ خان کی ماں کا کردار ادا کیا تھا۔