برطانوی جنرل سر رچرڈ بیرنز نے ایک ایسے وقت میں یہ بیان دیا ہے جب ان افغان اسپیشل فورسز کو جنہیں برطانیہ نے تربیت اور مالی معاونت فراہم کی تھی اور اور جنہوں نےافغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ میں برطانوی فوجیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کام کیا تھا، پاکستان سے نکالے جانے کے امکانات کا سامنا ہے۔
بی بی سی کی ا یک رپورٹ کے مطابق، طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد یہ افغان فوجی اور ان کے خاندان افغانستان سے فرار ہوکر پاکستان چلے گئے تھے، اور اسپیشل فورسز کے یہ 200 ارکان اگراب افغانستان واپس گئے تو طالبان انہیں انتقام کا نشانہ بنائیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ ایسے کسی بھی افغان کو ملک بدر کرنے کے لیے تیار ہے جن کے پاس رہائش کے لیے مناسب کاغذات نہیں ہیں۔
جنرل سر رچرڈ بیرنز نے بی بی سی نیوز نائٹ کو بتایا کہ افغانستان میں برطانیہ کے ساتھ کام کرنے والے افغانوں کو وہاں سے منتقل کرنے میں ناکامی "بے عزتی ہے۔"
انہوں نےمزید کہا کہ"یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بحیثیت قوم یا تو ہم دوغلے ہیں یا نااہل۔ اور دونوں ہی باتیں قابل قبول نہیں ہیں۔‘‘
SEE ALSO: امریکی حکام کو بتا دیا گیا تھا کہ انخلا کے بعد افغان فضائیہ اپنا وجود قائم نہیں رکھ پائے گی: رپورٹان کے علاوہ، اس وقت پاکستان میں مقیم ان 32 سابق افغان سیاست دانوں کے لیےبھی جنہوں نے برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ کام کیا ہے، مناسب کاغذی کارروائی نہیں ہوئی ہے جس سے وہ بیرون ملک سفر کر نے کے اہل ہو سکیں۔
فوجیوں اور سیاست دانوں، دونوں گروپوں کے زیادہ تر ارکان نےافغانوں کی نقل مکانی اور امدادی پروگرام کے ذریعے برطانیہ منتقل ہونے کے لیے کاغذی کارروائی مکمل کر لی ہے۔تاہم بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بہت سے لوگوں کو مسترد کر دیا گیا ہے، جب کہ دیگر ایک سال سے زیادہ عرصے بعد بھی اپنا اسٹیٹس جاننے کے منتظر ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
'پناہ گزینوں کی واپسی پالیسی شفٹ ہے'
پاکستان نے اکتوبر میں اعلان کیا تھا کہ یکم نومبر سے غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو اُن کے آبائی ملکوں میں بھیج دیا جائے گا جس کے بعد سے اب تک تین لاکھ سے زائد افغان باشندوں کو واپس بھجوایا جا چکا ہے۔
انسانی حقوق کی مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں اور امریکہ کی طرف سے پاکستان سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اُن غیر ملکی تارکینِ وطن کو ملک بدر کرنے کی پالیسی پر نظرِ ثانی کرے جن کی جانوں کو افغانستان واپسی پر خطرہ ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر قمر چیمہ کہتے ہیں کہ پاکستان کاغیر قانونی افغان پناہ گزینوں کی واپسی کا فیصلہ ایک پالیسی شفٹ کے طور پر لیا گیا ہے اور امریکی حکام جاننا چاہیں گے کہ اسسلام آباد مستقبل میں افغانستان کے حوالے سے کیا اقدامات لینے جا رہا ہے۔
اسی ماہ امریکہ کی اسسٹنٹ سیکریٹری برائے آبادی، پناہ گزین و مائیگریشن جولیٹا والس تین روزہ دورہ مکمل کر کے بدھ کو واپس روانہ ہوئی ہیں۔
پاکستان سے غیر قانونی تارکینِ وطن کی بے دخلی کے دوران امریکی عہدے داروں کے دورۂ پاکستان کو دونوں ملکوں کے تعلقات اور افغانستان کی صورتِ حال کے پیشِ نظر اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔
علی سرور نقوی نے کہا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ افغان مہاجرین کی واپسی پر سختی نہ کی جائے خاص طور پر ان خاندانوں کو واپس نہ بھجوایا جائے جنہیں افغانستان میں خطرہ ہے۔
پاکستان کی افغان پناہ گزینوں کے حوالے سے پالیسی تین مراحل میں ہے جس کے پہلے مرحلے میں غیر رجسٹرڈ افغان شہریوں کو واپس بھجوایا جارہا ہے، دوسرے مرحلے میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو واپس بھجوایا جائے گا اور تیسرے مرحلے میں یورپی ممالک اور امریکہ جانے کے منتظر افغان باشندوں کو واپس جانے کا کہا جائے گا۔
امریکہ نے حال ہی میں پاکستانی حکام کو 25 ہزار افغان باشندوں پر مشتمل ایک فہرست فراہم کی تھی۔ امریکی حکام نے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ ان افراد کو ملک بدر نہ کرے۔ تاہم پاکستان نے اس فہرست پر اعتراض اُٹھایا تھا اور اس معاملے پر اب بھی دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔
وی اے او نیوز۔