پاکستان اور امریکہ کے درمیان جمعرات کو ہونے والے اعلیٰ سفارتی رابطوں میں دیگر دو طرفہ امور اور علاقائی صورتِ حال کے علاوہ افغان مہاجرین کے معاملے پربھی گفتگو ہوئی ہے۔
یہ رابطہ ایسے موقع پر ہوا ہے جب پاکستان کی حکومت کی جانب سے افغان شہریوں سمیت غیر قانونی تارکینِ وطن کو رضاکارانہ طور پر پاکستان چھوڑنے کے لیے دی گئی یکم نومبر کی مہلت ختم ہونے میں چند روز ہی باقی رہ گئے ہیں۔
دوسری جانب اسلام آباد میں امریکہ کے سفیر ڈونلڈ بلوم نے پاکستان کے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ سے ملاقات کی ہے۔
امریکی سفارت خانے کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے جمعرات کو نگراں و زیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ سے ملاقات کی جس میں دوطرفہ اہم امور کے علاوہ امریکہ میں آباد کاری کے اہل افغان شہریوں کا معاملہ بھی زیرِ بحث آیا۔
دوسری جانب امریکہ کے محکمۂ خارجہ کے مطابق امریکہ کی قائم مقام نائب وزیر خارجہ وکٹوریہ نولینڈ نے پاکستان کے نگراں وزیرِ خارجہ جلیل عباس جیلانی سے ٹیلی فون پر بات کی جس میں افغان مہاجرین، پاکستان میں آزادانہ انتخابات اور غزہ میں جاری اسرائیل -حماس تنازع پر بات چیت ہوئی ہے۔
پاکستان نے بغیرکسی قانونی دستاویزات کے مقیم غیرملکی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ان میں پاکستان میں افغان شہریوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اگست 2021 میں افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا سے قبل امریکہ اور اتحادی فورسز کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔
اگرچہ پاکستان کی حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ غیر ملکی تارکین و طن کو ملک بدر کرنےکی اس کی پالیسی کا مقصد افغان شہریوں کو ہدف بنانا نہیں لیکن حکومت نے غیر قانونی طور پر مقیم جن غیر ملکی تارکین وطن کو رضاکارانہ طور پر یکم نومبر تک ملک چھوڑنے کہ مہلت دی ہے ان میں زیادہ تر افغان شہری ہیں۔
پاکستان میں لگ بھگ 13 لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین موجود ہیں۔حکومت کا کہناہے کہ غیر قانونی تارکین وطن سے متعلق پالیسی کا اطلاق ان افغان مہاجرین پر نہیں ہوگا۔
پاکستانی حکام سیکیورٹی تحفظات کو قانونی دستاویزات کے بغیر پاکستا ن میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی ممکنہ ملک بدری کا جواز قرار دیتے ہیں۔
پاکستان کی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ایک بیان کے مطابق آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے جمعرات کو ایک بیان میں غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر پاکستانی شہری کاتحفظ نہایت اہمیت کا حامل ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔
اسلام آباد نے گزشتہ چند ماہ کے دوران ملک میں ہونے والے بعض حملوں میں افغا ن شہریوں کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا لیکن افغان طالبان کی عبوری حکومت، پاکستان کے الزامات کو مسترد کر تی ہے۔
’پاکستان کی توقعات سمجھنی چاہئیں‘
بعض مغربی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ان خدشات کا اظہار کرتی ہیں کہ پاکستان سیکیورٹی خدشات کی بنیاد پر جن افغان باشندوں کو ملک بدر کررہا ہے ان میں صحافی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے علاوہ ایسے افغان باشندے بھی شامل ہیں جو اگست 2021 سے قبل امریکہ اور دیگر غیرملکی افواج کے ساتھ کام کرتے رہے تھے۔ افغانستان واپسی پران افراد کو طالبان حکومت کی جانب سے خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
تجزیہ کار ہما بقائی کہتی ہیں کہ افغان طالبان بھی نہیں چاہتے ہیں یہ لوگ واپس آئیں جب کہ دوسری طرف مغربی ممالک کو بھی اس معاملے پر تحفظات ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہےلیکن اگست 2021 کے بعد پاکستان میں آنے والے افغان مہاجرین کی وجہ سے پاکستان کے سیکیورٹی اور انتظامی مسائل میں کچھ پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔
ہما بقائی کا کہنا ہے کہ کابل میں افغان طالبان کی آمد کےبعد پاکستان کو سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے۔ پاکستان مغربی ممالک اور امریکہ سےاس معاملے کو وسیع تناظر میں دیکھنے کی توقع کرتا ہے۔
ان کا کہنا ہے اسلام آباد خاص طور پر دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے واشنگٹن سے تعاون چاہتا ہے۔ ان کے بقول، امریکہ کے پاکستان کی تارکین وطن کی پالیسی سے متعلق اگر کچھ خدشات ہیں تو انہیں بات چیت کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔
دوسری جانب پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے وائس آف امریکہ سے ایک انٹرویو میں کہا کہ پاکستان غیر ملکی تارکین وطن کی ملک بدری کے معاملے پر تمام متعلقہ ممالک بشمول افغانستان کی عبوری حکومت سے رابطے میں ہے۔
تارکین وطن سےمتعلق پاکستان کی حکمت عملی کا ذکر کرتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ ملک بدری کا سامنے کرنے والے غیر ملکی شہریوں کو پاکستان کے قانون کے مطابق اپیل کا حق حاصل ہو گا اور ان کی اپیل کے فیصلے پاکستانی قانون کے مطابق کیے جائیں گے۔
غیر ملکی این جی اوز کے لیے کام کرنے والے افغان تارکین وطن، افغان میڈیا ورکرز اور افغان انسانی حقوق کے کارکنوں کی وطن واپسی سے متعلق بارے میں سوال پر ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان تمام افغان تارکین وطن کے معاملے پر ہمدردانہ غور کرے گا جن کی تیسرے ملک میں پناہ کی درخواستیں زیر التوا ہیں۔
فورم