امریکہ کے سابق صدر جارج ڈبلیو بش کے دورِ حکومت میں وزیرِ دفاع کے منصب پر فائز رہنے والے ڈونلڈ رمز فیلڈ بدھ کے روز 88 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ انہیں امریکہ کی حالیہ تاریخ کی اہم ترین عراق جنگ کا خالق سمجھا جاتا ہے۔
رمز فیلڈ اپنے انتقال کے وقت نیو میکسیکو کے تاؤس نامی قصبے میں مقیم تھے، اور ان کا انتقال بھی وہیں ہوا۔
اُن کے خاندان کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ''نہایت ہی افسوس کے ساتھ اطلاع دی جاتی ہے کہ ڈونلڈ رمز فیلڈ انتقال کر گئے ہیں۔ وہ ایک منجھے ہوئے مدبر، مخلص انسان، ایک اچھے شوہر، نامور والد، دادا اور پر دادا تھے۔ انتقال کے وقت اہل خانہ ان کے سرہانے موجود تھے۔''
رمز فیلڈ ویتنام کی لڑائی کے دوران خدمات انجام دینے والے طاقت ور ترین وزیرِ دفاع رابرٹ میک نمارا کی سی شہرت کے مالک تھے۔ انہوں نے عالمی امور کی انجام دہی کے دوران بش انتظامیہ کے لئے ایک طاقتور معاون کا کردار ادا کیا۔
ان کی وزارت دفاع کے دوران امریکی افواج عراق کے صدر صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹنے میں کامیاب رہیں لیکن بعدازاں وہاں امن و امان قائم رکھنے میں ناکام رہیں۔
عراق جنگ کے آغاز سے قبل رمز فیلڈ نے اس معرکے کی اہمیت کا مقدمہ لڑا اور مارچ 2003 میں عراق کے خلاف عسکری کارروائی کا آغاز کیا۔ انہوں نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے مشتبہ عراقی ہتھیاروں کے باعث درپیش خطرات سے خبردار کیا۔ تاہم نشاندہی کردہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار کبھی دریافت نہیں ہو پائے۔
صدام حکومت کے خاتمے کے بعد عراق میں خونریز سرکشی نمودار ہوئی اور شیعہ سنی فسادات ہوئے۔ رمز فیلڈ کے جانے کے بہت عرصے بعد سال 2011 تک امریکی فوج عراق میں تعینات رہی۔
ڈونلڈ رمز فیلڈ نے جو صدر ریگن کے دور میں مشرق وسطی کے لئے امریکہ کے خصوصی مندوب بھی رہے، ایک موقعے پر کہا تھا کہ مشرق وسطی میں لوگ اپنی آزادیوں اور معاشی حقوق کے لئے جو جدوجہد کر رہے ہیں، اسے دیکھ کرامریکی عوام کو اپنی آزادیوں کی قدر کرنی چاہئے۔
سن 2011 میں وائس آف امریکہ اردو کے رضا نقوی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں ڈونلڈ رمز فیلڈ نے دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ اور پاکستان، امریکہ تعلقات پر کھل کر اظہار خیال کیا تھا۔ اس انٹرویو کی جھلکیاں دیکھنے کے لئے یو ٹیوب کے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کیجئے۔
دو ہزار گیارہ ہی میں واشنگٹن میں اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب 'نون اینڈ ان نون'(Known and Unknown) کی رونمائی کی تقریب کے موقعے پر انہوں نے کہا تھا، گیارہ ستمبر دوہزار ایک امریکہ کی دفاعی پالیسی میں ایک ایسا موڑ تھا ، جس کی کوئی تیاری پہلے سے نہیں کی گئی تھی۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'اپنی تقرری کی سماعت کے دوران مجھے خیال آرہاتھا کہ شائد سابق امریکی وزیر دفاع میک نمارا سے ویتنام کے بارے میں پوچھا نہیں گیا تھا، ڈک چینی سے عراق کے بارے میں پوچھا نہیں گیا تھا اور نہ ہی مجھ سے افغانستان کے بارے میں پوچھا گیا تھا ، جب میری تقرری کی گئی۔ اس سے کیا پتہ چلتا ہے ؟ کہ سینیٹ کے اراکین عقلمند لوگ ہیں ، وہ آپ سے کبھی نہیں پوچھتے۔ سینیٹر رابرٹ گیٹس نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کو کیا چیز پریشان کرتی ہے ، میں نے کہا انٹیلی جنس۔ یہ بات کہ ہم اتنی پیچیدہ دنیا، بند معاشروں کے ساتھ نمٹ رہے ہیں جہاں خطرناک گروہوں کے عزائم اور ارادوں کو پہچاننا بہت بڑا کام ہے۔ اس لئے ہمیں غیر متوقع کی توقع ہر وقت رکھنی چاہئے'۔
اسی موقعے پر رمزفیلڈ نے افغانستان کے بارے میں کہا تھا کہ 'نیشن بلڈنگ' امریکہ کا کام نہیں ہے ۔لیکن انہیں امید ہے کہ افغان قیادت اپنے ملک کو اپنے پاوں پر کھڑا کرنے میں کامیاب رہے گی ۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'ہم نے افغانستان کے لوگوں کو موقعہ دیا ہے۔ لیکن اس کے کیا نتائج ہونگے، یہ واضح نہیں'. ان کے بقول، 'افغانستان کے پڑوسی مشکل اور تعلقات پیچیدہ ہیں ۔ انہوں نے اپنا آئین بنا لیا ہے، پارلیمنٹ منتخب کر لی ہے ۔ ان کا ایک حال ہے، وہ ترقی کے راستے پر ہیں اور انہیں ایسا کرنا ہی ہوگا'۔
رمز فیلڈ کا کہنا تھا کہ کامیابی تب ملتی ہے، جب فوج اور سفارتکاری ایک ساتھ مل کر کام کریں ۔ ان کا کہنا تھا کہ کانگریس کی کمیٹیاں اور پینٹاگون کا تحریری مواد پڑھ کر ایک امریکی صدر اہم فیصلے کرتا ہے مگر یہ مواد اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں غلطی ہو سکتی ہے ۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ چین اور امریکہ کے درمیان فوجی تعاون کے حق میں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جو بدترین کام کانگریس کر سکتی ہے ، وہ کسی ملک سے فوجی روابط ختم کر کے کر سکتی ہے جیسے ایک وقت پر انڈونیشیا، انڈیا ، پاکستان کے ساتھ فوجی تعلقات توڑے گئے تھے ۔ جس کا نتیجہ، ان کے بقول، 'یہ ہوتا ہے کہ دونوں طرف فوجی افسران کی کئی نسلیں ایک دوسرے سے کسی رابطے کے بغیر رہ جاتی ہیں۔ جو بہترین چیز ہو سکتی ہے کہ دوسری ملکوں کی فوج کے ساتھ قریبی فوجی تعلقات رکھے جائیں'. ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارے فوجی سکول بہترین ہیں اور دوسرے ملکوں کے فوجی افسروں کے لئے بہترین جگہ ہیں کہ وہ ہمیں سمجھیں کہ ہم کیسے کام کرتے ہیں'۔
رمز فیلڈ بش کابینہ کے دیگر ارکان کے علاوہ چند فوجی اہلکاروں اور کانگریس کے ارکان کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے کی شہرت رکھتے تھے، جن میں وزیر خارجہ کولن پاویل بھی شامل تھے۔
رمز فیلڈ کے دور میں یورپ میں امریکی اتحادی بھی ان سے نالاں رہے۔
بغداد شہر سے باہر واقع ابو غریب قید خانے میں امریکی اہلکاروں کے ہاتھوں قیدیوں سے مبینہ بدسلوکی کی تصاویر منظر عام پر آنے کے بعد 2004 میں رمز فیلڈ نے دو بار مستعفی ہونے کی درخواست دی، جسے صدر بش نے مسترد کیا۔
ابو غریب کے اسکینڈل کے معاملے پر امریکہ کے خلاف بین الاقوامی برادری کی جانب سے مذمتی بیانات سامنے آئے۔ بتایا جاتا ہے کہ رمز فیلڈ نے قیدیوں کے ساتھ تفتیش کے مبینہ سخت ترین طریقۂ کار برتنے کی اجازت دی تھی۔
SEE ALSO: امریکہ کا افغانستان اور عراق سے مزید فوجیوں کی واپسی کا اعلانعراق میں امریکیوں کی جانب سے قیدیوں کے علاوہ کیوبا میں گوانتانامو بے پر واقع امریکی بحری اڈے پر قائم خصوصی قید خانے میں قیدیوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کے معاملے پر بھی بین الاقوامی برادری نے امریکہ کی مذمت کی جب کہ انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں نے الزام لگایا تھا کہ قیدیوں کے ساتھ اذیت ناک سلوک کیا جاتا ہے۔
رمز فیلڈ بش دور کے نائب صدر ڈک چینی کے قریبی حلیف خیال کیے جاتے تھے، جو ستر کی دہائی میں رچرڈ نکسن اور فورڈ کے دورِ صدارت میں رمز فیلڈ کے ساتھ کام کر چکے تھے۔
رمز فیلڈ امریکی بحریہ میں بطور پائلٹ بھی خدمات انجام دے چکے تھے۔ انہوں نے نیٹو کے لیے امریکی سفیر کے طور پر فرائض انجام دیے تھے اور وہ امریکی ایوانِ نمائندگان کے رکن بھی رہے تھے۔
اس خبر میں شامل کچھ معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز'اور ایسوسی ایٹڈ پریس سے بھی لی گئی ہے۔