افغان طالبان کے حقانی نیٹ ورک کے بانی اور طالبان رہنما جلال الدین حقانی کا انتقال ہوگیا ہے۔ افغان طالبان نے حقانی کے انتقال کی تصدیق کردی ہے۔
افغان طالبان کی جانب سے منگل کو ٹوئٹر پر جاری کیے جانے والے ایک بیان میں جلال الدین حقانی کی موت کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ ایک عرصے سے بیمار تھے۔
بیان کے مطابق حقانی کا شمار "اپنے دور کی عظیم ترین جہادی شخصیات میں ہوتا تھا۔"
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے امریکی خبر رساں ادارے 'دی ایسوسی ایٹڈ پریس' سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ جلال الدین حقانی کا انتقال پیر کو افغانستان میں ہوا۔
طالبان ترجمان نے اپنی گفتگو میں حقانی کو "ایک عالمِ دین اور مثالی جنگجو" بھی قرار دیا۔
پیرانہ سالی کا شکار جلال الدین حقانی گزشتہ 10 سال سے بیمار تھے اور ان کی موت کی خبریں 2015ء سے گردش کر رہی تھیں۔
بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ فالج کے اثر اور دیگر عوارض کے باعث چلنے پھرنےسے بھی معذور تھے۔
جلال الدین حقانی 1980ء کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے افغان جنگجووں کے ایک نڈر اور بے باک کمانڈر کے طور پر منظرِ عام پر آئے تھے اور اس دوران انہیں اور ان کے ساتھیوں کو مبینہ طور پر امریکی 'سی آئی اے' اور پاکستانی فوج نے اسلحہ، تربیت اور مالی وسائل فراہم کیے تھے۔
بعد ازاں طویل خانہ جنگی کے بعد کابل پر اقتدار قائم کرنے والے طالبان نے انہیں اپنی حکومت میں وزیر مقرر کیا تھا۔
جلال الدین حقانی کو عربی پر عبور حاصل تھا جس کی وجہ سے ان کے 'القاعدہ' کے سربراہ اسامہ بن لادن سمیت سوویت یونین کے خلاف جنگ میں شریک عرب جنگجووں سے بھی قریبی تعلقات قائم ہوگئے تھے جو جنگ کے خاتمے کے بعد بھی برقرار رہے۔
طالبان کی تحریک کا حصہ بننے کے بعد جلال الدین حقانی کے حامی جنگجووں کو 'حقانی نیٹ ورک' کے نام سے جانا جاتا تھا۔
امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کے مطابق حقانی نیٹ ورک کے جنگجووں کا شمار طالبان کے ماہر اور مؤثر ترین جنگجووں میں ہوتا ہے جو 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد سے وہاں ہونے والے بعض نمایاں ترین ہلاکت خیز حملوں اور کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں۔
حقانی نیٹ ورک کے جنگجو خود کش حملہ آوروں کے بلاتکلف استعمال کے بارے میں بھی بدنام ہیں۔ امریکہ نے 2012ء میں اس نیٹ ورک کو دہشت گرد قرار دیا تھا۔
امریکی حکام کا دعویٰ رہا ہے کہ جلال الدین حقانی اور ان کے نیٹ ورک کے پاکستان کی فوج خصوصاً اس کی خفیہ ایجنسی 'آئی ایس آئی' کے ساتھ قریبی تعلقات رہے ہیں اور ان کے بقول ان جنگجووں کے بیشتر ٹھکانے افغانستان کی حدود سے متصل پاکستان کے قبائلی علاقوں میں واقع ہیں۔
امریکی فوج کے اس وقت کے سربراہ ایڈمرل مائیک مولن نے 2011ء میں حقانی نیٹ ورک کو پاکستان انٹیلی جنس کا "حقیقی بازو" قرار دیا تھا۔ لیکن پاکستان کی حکومت اور فوج ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔
جلال الدین حقانی کی علالت کے باعث گزشتہ کئی برسوں سے 'حقانی نیٹ ورک' کی سربراہی ان کے بیٹے سراج الدین حقانی کے پاس ہے جو افغان طالبان کے نائب سربراہ بھی ہیں۔ لہذا امکان ہے کہ جلال الدین حقانی کے انتقال سے ان کے حامی جنگجووں کی تنظیم اور کارروائیوں پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔