خیبر پختونخوا کے محکمۂ آثارِ قدیمہ نے مردان کی تحصیل تخت بائی کی یونین کونسل پٹ بابا اور سرا بہول سمیت کئی دیہات میں بدھ مت کے مجسموں اور دیگر آثار کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات شروع کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
محکمۂ آثارِ قدیمہ کی رپورٹ پر مردان کی پولیس نے ان چار افراد کو بھی حراست میں لے کر کارروائی شروع کی ہے جنہوں نے مکان کی تعمیر کی کھدائی میں دریافت ہونے والے بدھا کے 1700 سال قدیم مجسمے ایک مقامی مذہبی شخص کے اُکسانے پر تباہ کر دیے تھے۔
مقامی افراد کے مطابق یہ واقعہ لگ بھگ 25 دن قبل پیش آیا تھا۔
محکمۂ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبد الصمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ چار افراد کی گرفتاری کے بعد ان کے محکمے نے متعلقہ گاؤں سمیت دیگر دیہات میں مدفون بدھا کے مجسموں اور دیگر آثار کو نکالنے اور محفوظ بنانے کے لیے اقدامات شروع کر دیے ہیں۔
ان کے بقول آئندہ چند روز میں باقاعدہ طور پر کھدائی شروع کر دی جائے گی۔
مقامی افراد کے مطابق مردان سے لگ بھگ 15 کلو میٹر دور تحصیل تخت بائی کے سرا بہول اور دیگر دیہات میں گندھارا تہذیب کے آثار اور بدھ مت کے مجسمے زمین میں دفن ہیں۔
ان کے مطابق ماضیٔ قریب میں اس علاقے سے ملنے والے بہت سے مجسموں کو حکومتی اداروں نے تحویل میں لے کر مختلف عجائب گھروں میں محفوظ کیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ان علاقوں سے کثیر تعداد میں ملنے والے مجسمے اور دیگر قدیم نوادرات کی بیرونِ ملک بہت مانگ ہے اس لیے بعض اوقات ان کی بیرون ملک فروخت بھی ہوتی ہے۔
ان علاقوں کے رہنے والے متعدد افراد بدھا کے قدیم مجسموں کی نقل بنانے کے بھی ماہر بتائے جاتے ہیں۔ بعض افراد پتھروں کو تراش کر مجسمے بناتے ہیں اور مبینہ طور پر یہ مجسمے کئی کئی ماہ تک زمین میں دفن کرکے رکھتے ہیں تاکہ بین الاقوامی یا مقامی خریداروں کے سامنے ان کو بدھا دور کے مجسمے ثابت کر سکیں۔
مردان سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی حیات اللہ اختر کا کہنا ہے کہ مصر کے احرام کے بعد بدھا کے زمانے کے قدیم آثار مشہور ہیں۔ مردان کے کچھ علاقوں میں عرصۂ دراز سے تعمیرات کے لیے کھدائی اور کھیتی باڑی کے دوران مجسمے ملتے رہے ہیں۔
ان کے بقول بعض اوقات لا علمی یا شعور نہ ہونے کے باعث لوگ ان مجسموں کو توڑ دیتے ہیں جب کہ کچھ لوگ اسے غیر قانونی طور پر فروخت بھی کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں آثارِ قدیمہ کی دریافت اور اسے محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کرے۔
حیات اللہ اختر نے مزید کہا کہ تخت بائی کے مختلف دیہات سے ملنے والے مجسمے اور دیگر نوادرات پشاور، لاہور، ٹیکسلا اور کراچی کے علاوہ برطانیہ سمیت کئی ممالک کے عجائب گھروں میں رکھے گئے ہیں۔