"میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ ایک روزہ ماں کے ساتھ بھی کھول لو تو اس نے مجھ سے وعدہ کیا کہ ختمِ تراویح والے دن آؤں گا اور دیر تک بیٹھوں گا۔مگر میرا بیٹا تو ختمِ تراویح سے پہلے ہی چلا گیا۔میں ہمیشہ اس کو سمجھاتی تھی کہ آگ لگی ہو تو آگے نہیں جانا پیچھے سے پانی ڈالنا، بس پیچھے ہی رہنا، دیکھو آج میرا بیٹا چلا گیا۔"
یہ کہنا ہے نسرین خاتون کا جو فائر فائٹر محمد محسن کی والدہ ہیں جو کراچی میں فیکٹری میں آگ لگنے کے واقعے میں عمارت منہدم ہونے سے ہلاک ہونے والے چار فائر فائٹرز میں سے ایک ہیں۔
کراچی کے رہائشی 38 سالہ محمد محسن شریف تین بھائیوں اور دو بہنوں میں سب سے بڑے اور دو بچوں کے والد تھے۔ سال 2015 میں والد کی وفات کے بعد محسن 2017 میں فائر بریگیڈ کے شعبے سے منسلک ہوئے۔ اس سے قبل وہ فیکٹری میں ملازمت کرتے تھے۔
بدھ کو کراچی کے علاقے نیو کراچی میں ایک فیکٹری میں آتشزدگی کے واقعے میں ان کی ہلاکت اس وقت ہوئی جب آگ پر قابو پانے کے بعد رات گئے کولنگ کا عمل جاری تھا۔محسن اس وقت عملے کے دیگر افراد کے ہمراہ عمارت میں موجود تھے کہ مخدوش عمارت اچانک زمین بوس ہوگئی ۔ عمارت منہدم ہونے سے فائر بریگیڈ کے عملے کے چار افراد ہلاک اور 13 زخمی ہوگئے۔
بیٹے کی موت کے سبب محسن کی والدہ اور ان کی اہلیہ شدید غمزدہ ہیں۔ گھر پر تعزیت کے لیے آنے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ محسن کی والدہ کرسی پر نڈھال بیٹھی ہیں اور ان کے گھٹنے پر سر رکھے بیٹھی ہوئی محسن کی اہلیہ صدمے کی کیفیت میں ہیں۔ انہیں اپنے شوہر کی موت کا یقین نہیں آ رہا۔
محسن کے دو بچوں میں بڑا بیٹااریب نویں جماعت جب کہ گیارہ سالہ بیٹی انوشہ چھٹی جماعت میں زیرِتعلیم ہیں۔
انوشہ کہتی ہیں کہ ابو گھر پر کام کے متعلق زیادہ بات نہیں کرتے تھے۔ کل انہوں نے ہمارے ساتھ افطار کیا اور پھر نماز کے بعد ڈیوٹی پر چلے گئے، یہی ان کا معمول تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کچھ دن پہلے ابو نے کہا تھا کہ فرصت مل جائے تو عید کی باقی تیاریاں کرا دوں گا۔ ہمارے عید کے کپڑے ابو نے سلنے کے لیے دیے ہوئے تھے۔
وہ کہتی ہیں کہ "ہمیں نہیں معلوم تھا کہ ابو کو کچھ ہوگیا ہے۔ سحری میں چچی کی کال آئی انہوں نے امی کو بتایا کہ آگ بجھاتے ہوئے ابو زخمی ہوئے ہیں آپ سب وہاں آجائیں۔ جب ہم دادی کے پاس پہنچے تو ہمیں معلوم ہوا کہ ابو اب اس دنیا میں نہیں رہے۔"
محسن کے چھوٹے بھائی محمد الطاف بھی فائر اسٹیشن میں گارڈ کی ڈیوٹی کرتے ہیں۔ ان کے مطابق رات میں انہیں کال موصول ہوئی جس میں بتایا گیا کہ نیو کراچی میں ہونےوالی آتشزدگی میں متاثرہ عمارت گری ہیں۔واقعے میں عملے کے لوگ زخمی ہوئے ہیں جنہیں عباسی شہید اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔
"میں اس کال کے بعد سینئرز کو لے کر اسپتال روانہ ہوا۔ راستے میں دوسری کال آئی کہ عملے کے چار لوگ لاپتا ہیں۔ میرا دھیان اپنے بھائی کی طرف گیا کیوں کہ وہ بھی ڈیوٹی پر موجود تھا۔ میں اسی پریشانی میں اسپتال پہنچا اور زخمیوں کے لیے بھاگ دوڑ شروع ہوگئی۔ ڈاکٹر کبھی کوئی دوا لانے کو کہتے تو کبھی کوئی ٹیسٹ کرانے کے لیے بھگاتے۔ اتنے میں مجھے پتا چلا کہ ایک شخص کی لاش نکال لی گئی ہے۔"
وہ کہتے ہیں کہ "میرا بھائی لاپتا لوگوں میں شامل تھا۔ تب میرے پیروں تلے زمین نکل رہی تھی۔ تھوڑی دیر میں اطلاع آئی کہ بھائی اب دنیا میں نہیں رہے۔"
محمد الطاف کے بقول، "ایک فائر فائٹر لوگوں کی جان بچاتے ہوئے خود اس دنیا سے چلا گیا۔ اس کے جسم پر ایک شرٹ اور ٹراؤزر تھا جو اس نے خود خرید کر پہنا ہوا تھا۔ آگ بھجانے والوں کو حفاظتی آلات، کپڑے، جوتے، جیکٹس، ٹوپی اور دیگر اشیا فراہم کی جائیں گی تو وہ خود کو محفوظ رکھتے ہوئے خطرے میں کودیں گے۔ لیکن یہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ کوئی پرسان حال نہیں ہے۔"
انہوں نے بتایا کہ ان کے بھائی کی جب اس محکمے میں نوکری ہوئی تھی تو اس نے اپنے لیے ٹراؤزر، شرٹس، گلوز خود جا کر لائٹ ہاؤس سے خریدے تھے۔
محسن کے جنازے میں فائر بریگیڈ کے عملے کے اہل خانہ بھی شریک تھے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے زاہدہ خاتون نے بتایا کہ ان کا بیٹا بھی گزشتہ بارہ برسوں سے فائر فائٹر کی ڈیوٹی سر انجام دے رہا ہے اور وہ اس کے بارے میں فکر مند رہتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ "آپ اس ماں کو دیکھیں جس نے اپنا بیٹا کھو دیا ہے۔ اس بیوی کو دیکھیں جس کا شوہر نہیں رہا۔ ابھی تو اس بچے کی زندگی کا آغاز تھا اور وہ یوں چلا گیا۔ اس محکمے میں نوکری کرنے والے جن خطرات کا سامنا کرتے ہیں وہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔"
انہوں نے کہا کہ "میں تو دیکھتی رہتی ہوں کہ اگر کوئی آگ بجھانے کے دوران زخمی ہوجائے تو یہ ادارہ علاج کے لیے عباسی شہید اسپتال یا جناح اسپتال لے جانے کو کہتا ہے۔ وہاں کون سا بہتر علاج ہوتا ہے۔ ان کی کوئی لائف انشورنس نہیں۔ایک بار میرا بیٹا آگ بجھانے کے دوران زخمی ہوا توا س نے اپنا علاج ایک نجی اسپتال سے اپنے خرچے پر کرایا۔"
زاہدہ خاتون کے مطابق وہ اپنے بیٹے سے کہتی ہیں کہ کوئی اور کام کرلو لیکن وہ ہنس کر کہتا ہے کہ آپ موت سے ڈرتی ہیں۔ وہ تو کہیں بھی آنی ہے ، اگر اسی طرح سب ڈر ڈر کر نوکری چھوڑ دیں تو یہ کام کون کرے گا؟ لیکن آج یہ دیکھ کر میرا دل پھٹ رہا ہے، کیا اب بھی ہمارے بچو ں کی حفاظت کا کوئی بندوبست یہ محکمہ کرے گا یا نہیں؟
محسن اکثر سہولیات کی عدم دستیابی کے بارے میں اپنے بھائی سے تذکرہ کرتے تھے۔ ان کے بھائی محمد الطاف کہتے ہیں کہ حال ہی میں زینب مارکیٹ میں لگنے والی آگ میں بھائی جب آگ بجھانے میں مصروف تھے تو ایک شیشہ ان کے جوتے کو پھاڑ کر ان کے پاؤں میں پیوست ہوگیا۔ اس واقعے کے بعد عملے کے سینئرز کو تعریفی اسناد دی گئیں۔ تب بھائی نے ہنستے ہوئے کہا کہ میرا پاؤں زخمی ہوا، حالت بھی خراب ہوئی لیکن ہمارے لیے صرف دلاسے ہیں، تعریف کہیں بھی نہیں۔
محسن کی بھابھی ماریہ کہتی ہیں کہ تین روز قبل ہم ان کے گھر افطار پر مدعو تھے۔ وہ حسب معمول اپنی ڈیوٹی پر تھے جب ہم افطار اور کھانے سے فارغ ہوئے تو واپسی پر میں اور میرے شوہر ان سے ملنے شاہ فیصل فائر اسٹیشن چلے گئے۔وہاں انہوں نے کہا کہ بس اب میں آؤں گا اور ساتھ مل کر بہت سی باتیں کریں گے۔
وہ کہتی ہیں کہ "میں نے پورے خاندان میں ان جیسا شفیق اور ملنسار شخص نہیں دیکھا۔ اپنے تمام بہن بھائیوں میں وہ اپنی ماں کے سب سے زیادہ فرمانبردار تھے۔ میری ساس اگر انہیں آدھی رات کو بھی کال کرکے کہہ دیتی کہ تمہیں دیکھنا ہے تم آجاؤ تو وہ حاضر ہوجاتے تھے۔وہ اپنی ماں کے جس طرح لاڈلے تھے اسی طرح وہ اپنی بیٹی کو چاہتے تھے، وہ جو کہتی تھی اسے پورا کرتے تھے۔ وہ میرے جیٹھ نہیں باپ جیسے تھے جن کی کمی کبھی پوری نہیں ہوسکتی۔"
محسن کے 13 سالہ بیٹے اریب سے تعزیت کرنے والے گلے مل کر انہیں دلاسہ دے رہے ہیں جن کے چہرے پر باپ کو کھو دینے کا دکھ اور آنکھوں میں نمی واضح ہے، وہ کبھی اپنی غمزدہ ماں کے پاس جاتے ہیں تو کبھی دادی کو تسلی دیتے ہیں۔
محمد الطاف کے مطابق والد کی موت کے بعد بڑا بھائی باپ کی جگہ تھا۔ اس نے ہمارے اچھے برے وقت میں سات دیا۔ آج اس شخص کے بچے یتیم ہوگئے اور عالم یہ ہے کہ اب تک کوئی حکومتی نمائندہ ان بچوں پر دستِ شفقت رکھنے کے لیے نہیں آیا۔
انہوں نے کہا کہ "ہمیں کچھ نہیں چاہیے۔ صرف انصاف چاہیے اور یہ یقین دہانی چاہیے کہ جو بھی فائر بریگیڈ کے محکمے سے وابستہ ہے اسے انسان سمجھا جائے۔اس کی جان کو بھی قیمتی جانا جائے، جب وہ ڈیوٹی کرے تو اسے اور اس کے خاندان کو یہ یقین ہو کہ وہ محفوظ رہتے ہوئے یہ پرخطر کام کر رہا ہے۔"
ہلاک ہونے والوں میں سے محمد سہیل کی میت حیدرآباد روانہ کردی گئی ہے جب کہ محمد محسن شریف، خالد شہزاد اور محمد افضال کا نمازِ جنازہ شاہ فیصل فائر اسٹیشن میں ادا ہونے کے بعد مقامی قبرستان میں ان کی تدفین کردی گئی۔