پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کے ضلع لکی مروت میں منگل اور بدھ کی درمیانی شب نامعلوم افراد کی پولیس کی گاڑی پر فائرنگ سے چار اہل کار ہلاک ہو گئے ہیں۔
لکی مروت کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) کے دفتر سے جاری بیان میں فائرنگ سے ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ لکی مروت پولیس معمول کے مطابق گشت کر رہی تھی کہ میانوالی روڈ پر نامعلوم ملزمان نے اس پر فائرنگ کر دی۔
بیان کے مطابق فائرنگ کے نتیجے میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر یعقوب خان شہاب خیل، دو کانسٹیبل اور ایک ڈرائیور ہلاک ہوئے۔ واقعہ کے بعد لاشوں کو سٹی اسپتال لکی مروت منتقل کیا گیا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ فائرنگ کرنے والے ملزمان موقع سے فرار ہو گئے تھے۔ البتہ مختلف مقامات پر ناکہ بندی کر کے ان کی تلاش شروع کر دی گئی ہے۔
پولیس نے مقدمہ درج کر کے مزید تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
ادھر کالعدم تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے ایک بیان میں لکی مروت میں پولیس وین پر فائرنگ کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
وزیرِ اعلیٰ محمود خان نے لکی مروت میں پیش آئے واقعہ کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے پولیس کو ہدایت کی کہ حملے میں ملوث افراد کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے۔
علاوہ ازیں فائرنگ کے واقعہ میں ہلاک اہل کاروں کی نمازِ جنازہ پولیس لائن لکی مروت میں ادا کر دی گئی جس کے بعد ان کی سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین کی گئی۔
دوسری جانب فائرنگ کے واقعہ پر تجزیہ کار سابق ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس سید اختر علی شاہ کہتے ہیں کہ جب تک افغانستان میں حالات مستحکم نہیں ہوتے تب تک اس خطے میں دہشت گردی اور تشدد کے واقعات ہوتے رہیں گے۔
ان کے مطابق اس وقت افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہے۔ مگر وہاں مختلف دہشت گرد عناصر موجود ہیں۔
سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں دو اہل کار ہلاک
دوسری جانب بنوں اور لکی مروت سے محلقہ خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں تین مختلف علاقوں میں سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں دو اہل کار ہلاک اور ایک زخمی ہوا ہے۔
ضلعی ہیڈکوارٹرز میران شاہ کے پولیس حکام کا کہنا ہے کہ میر علی میں پتسی اڈہ کے قریب آئی ای ڈی دھماکے میں نائیک قمر زخمی ہوا۔ جب کہ تحصیل دتہ خیل کے علاقے دیگان میں دھماکے کے نتیجے میں ایک سپاہی شوکت خان کی موت کے منہ میں چلا گیا۔
حکام نے مزید بتایا کہ تحصیل رزمک کے گڑیوم علاقے میں دیسی ساختہ ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کے نتیجے میں سپاہی روہیل نشانہ بنا۔
پولیس حکام کے مطابق ان واقعات کے بعد سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔
ہنگو میں اسکول ٹیچر کا قتل
خیبرپختونخوا کے ایک اور ضلع ہنگو میں بدھ کو ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفس کے سامنے نامعلوم موٹرسائیکل سواروں کی فائرنگ سے ایک ٹیچر ہلاک ہو گیا۔
ہلاک ٹیچر کی شناخت علی مرتضیٰ کے نام سے ہوئی اور وہ کام کے سلسلے میں ایجوکیشن آفس آیا تھا۔
SEE ALSO: پشاور میں 'داعش' کے تین عسکریت پسند مارنے کا دعویٰ، باجوڑ میں چار سیکیورٹی اہل کار ہلاکپولیس حکام نے واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ملزمان موقع سے فرار ہو گئے ہیں ان کی گرفتاری کے لیے ناکہ بندی کر دی ہے۔
بنوں سے خاتون سمیت چار سرکاری اہل کار اغوا
ضلع بنوں کے شمالی وزیرستان روڈ پر باران کیمپ کے قریب سے منگل کو محکمۂ جنگلات کے چار اہل کاروں کو اغوا کر لیا گیا۔ پولیس نے مقدمہ درج کر لیا ہے۔ اغوا ہونے والوں میں ایک خاتون بھی شامل ہے۔
کرم میں قبائلی گرہوں کے تصادم میں 16 افراد ہلاک
قبل ازیں گزشتہ دنوں ضلع کرم کے دو سرگرم قبائلی گروہوں کے درمیان پہاڑی اراضی کے تنازع پر کم از کم 16 افراد ہلاک اور متعدد ہوئے تھے۔ ڈسٹرکٹ پولیس افسر طاہر اکرم نے ان ہلاکتوں کی تصدیق کی تھی۔
ضلع کرم کے سرحدی علاقے میں ہفتے کو شروع ہونے والی مسلح جھڑپوں کا یہ سلسلہ جمعہ کی شام کو ایک متنازع جنگل سے لکڑیاں کاٹنے پر شروع ہوا تھا جو مقامی قبائلیوں کے مطابق اتوار کی رات تک جاری رہا تھا۔
پولیس نے بتایا تھا کہ فریقین کے درمیان 32 گھنٹوں تک لڑائی جاری رہی۔ جس کے بعد دونوں قبائل کے درمیان صلح کے لیے منگل کو جرگے کا انعقاد کیا گیا تھا۔ تاہم اس پر ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں آیا ہے۔