سن 1947 میں تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان اور بھارت دو آزاد مملکتوں کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرے اور ساتھ ہی تاریخ کے اس دور پر فلمیں بننے کا ایک نیا سلسلہ بھی شروع ہوا۔
اس سے قبل ہالی وڈ میں پہلی اور دوسری جنگِ عظیم سے متعلق فلمیں سنیما گھروں کی زینت بنا کرتی تھیں لیکن 1947 میں تقسیمِ ہند کے بعد فلم انڈسٹری کو ایک اور موضوع مل گیا تھا۔
نہ صرف ہالی وڈ بلکہ برطانوی فلم انڈسٹری اور خود برِ صغیر کی فلم انڈسٹری نے بھی تقسیم کے وقت کے حالات و واقعات پر فلمیں بنائیں۔
ان فلموں میں اس دور کے سیاسی حالات کے علاوہ ہندوستان سے ہجرت کے دوران بچھڑ جانے والے خاندانوں اور بھارت میں رہنے کو ترجیح دینے والے مسلم گھرانوں کی کہانیاں بیان کی گئی ہیں۔
تقسیمِ ہند پر بننے والی فلموں میں جہاں 'جناح' 'پارٹیشن' اور 'بھوانی جنکشن' جیسی فلمیں نمایاں ہیں تو وہیں بالی وڈ کی 'دھرم پترا'، 'چھلیا' اور 'گرم ہوا' کو بھی فلم بینوں نے خوب پسند کیا تھا۔
ہالی وڈ اور بالی وڈ کے علاوہ لالی وڈ میں بھی پاک بھارت آزادی کی کہانی پر مبنی کئی فلمیں اور ڈرامے بنائے گئے ہیں۔
لالی وڈ میں فلم 'بہن بھائی' اور 'لاکھوں میں ایک' جیسی کامیاب فلمیں سنیما گھروں کی زینت بنی۔
پاکستان اور بھارت کے 74 ویں یومِ آزادی کے موقع پر ہم ایسی 14 فلموں پر نظر ڈالتے ہیں جن میں دونوں ملکوں کی آزادی کی داستان بیان کی گئی ہے۔
1۔ بھوانی جنکشن
مشہور امریکی ناول نگار جان ماسٹرز کا ناول بھوانی جنکشن 1956 میں پردے کی زینت بنا تھا۔
اس فلم کی زیادہ تر عکس بندی انگلینڈ اور پاکستان میں ہوئی تھی جس کے لیے ہالی وڈ اداکارہ ایوا گارڈنر اور اداکار اسٹورٹ گریگنر پاکستان آئے تھے۔
فلم کی کہانی وکٹوریہ جونز کے گرد گھومتی ہے جس کے والد برٹش اور ماں انڈین ہوتی ہے اور وہ 1947 میں برٹش آرمی میں ہونے کے باوجود بھی اپنی شناخت کی تلاش میں لگی رہتی ہے۔ اسی دوران اسے ایک بھارتی شخص سے محبت ہو جاتی ہے۔
فلم کی کہانی اس وقت ایک دلچسپ موڑ لیتی ہے جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گرد اس ٹرین کو نشانہ بنانے جا رہے ہیں جس میں مہاتما گاندھی سوار ہوں گے۔
یاد رہے کہ اداکار شان شاہد کی والدہ نیلو نے اسی فلم کے ذریعے ڈیبیو کیا تھا جب کہ نامور پاکستانی اداکار ساقی نے بھی اس فلم میں کام کیا تھا۔
2۔ چھلیا
ہدایت کار من موہن ڈسائی کی فلم انڈسٹری میں انٹری اسی فلم سے ہوئی تھی جس میں راج کپور، نوتن اور رحمان نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔
فلم کی کہانی روسی ناول 'وائٹ نائٹس' سے ملتی جلتی ہے جسے پاک بھارت بٹوارے کے تناظر میں رکھ کر فلمایا گیا تھا۔
فلم کے گانے 'ڈم ڈم ڈیگا ڈیگا'، 'میرے ٹوٹے ہوئے دل سے' اور 'چھلیا میرا نام' ساٹھ برس گزر جانے کے باوجود آج بھی سب کو یاد ہیں۔
3۔ دھرم پترا
ساٹھ کی دہائی میں یش چوپڑا کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم 'دھرم پترا' میں نہ صرف ششی کپور نے ڈیبیو کیا تھا بلکہ اپنی شاندار اداکاری سے سب کو اپنا مداح بنا لیا تھا۔
انہوں نے اس فلم میں ایک ایسے لڑکے کا کردار ادا کیا تھا جو پیدا تو ایک مسلم گھرانے میں ہوتا ہے لیکن وہ بڑا ہو کر مسلمانوں کے ہی خلاف ہو جاتا ہے۔
اس کی پرورش اس کی ماں کے ہندو دوستوں نے کی ہوتی ہے اور جب ماں اپنے بیٹے دلیپ سے کئی برس بعد ملنے آتی ہے تو اس کا نیا روپ دیکھ کر پریشان ہو جاتی ہے۔
4۔ لاکھوں میں ایک
ہدایت کار رضا میر پاکستان کی پہلی فلم 'تیری یاد' کے سنیماٹوگرافر تھے اور جب ساٹھ کی دہائی میں انہوں نے ہدایت کاری کے میدان میں قدم رکھا تو انہوں نے فلم 'لاکھوں میں ایک' کو چنا تھا۔
اس فلم کی کہانی ضیا سرحدی نے لکھی تھی جب کہ اس کی موسیقی نثار بزمی نے ترتیب دی تھی۔
'لاکھوں میں ایک' کی کہانی کشمیر کی وادیوں میں جنم لیتی ہے جہاں پاکستان کے قیام کے وقت ایک ہندو خاندان اپنی بیٹی شکنتلا سے بچھڑ جاتا ہے اور بعد میں اس لڑکی کو ایک مسلمان لڑکے سے محبت ہو جاتی ہے۔
مشہور اداکار مصطفیٰ قریشی نے اسی فلم کے ذریعے فلم انڈسٹری میں قدم رکھا تھا جب کہ اس فلم میں نور جہاں کے گائے ہوئے گیت آج بھی لوگوں کو یاد ہیں۔
5۔ بہن بھائی
ہدایت کار حسن طارق نے ساٹھ کی دہائی میں اس وقت ایک ملٹی اسٹار فلم بنائی جب اس کا تصور نیا نیا تھا۔
فلم 'بہن بھائی' کی کہانی ایک ایسے خاندان کے گرد گھومتی ہے جس کے تمام افراد بھارت سے ہجرت کے دوران بچھڑ جاتے ہیں۔
فلم کے کلائمکس میں کہانی اس وقت ایک نیا موڑ لیتی ہے جب سارے بھائی بہن ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور وہی گانا گنگناتے ہیں جو ان کی ماں نے بچھڑنے سے قبل گایا ہوتا ہے۔
اس فلم میں اداکار سید کمال سمیت ندیم نے اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔
فلم کی موسیقی اے حمید نے ترتیب دی تھی اور پچاس برس سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی فلم کے گانے 'اے بے کسوں کے والی'، 'ہیلو ہیلو مسٹر عبدالغنی' اور 'کاش کوئی مجھ کو سمجھاتا' آج بھی مقبول ہیں۔
6۔ گرم ہوا
جب بھی برصغیر کی تقسیم پر بننے والی فلموں کی بات کی جائے گی تو فلم 'گرم ہوا' کا ذکر ضرور آئے گا۔
اس فلم کی کہانی ایک ایسے مسلم خاندان کے گرد گھومتی ہے جو پاکستان ہجرت کرنے کے بجائے بھارت میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔
افسانہ نگار عصمت چغتائی کی ایک مختصر کہانی سے ماخوذ اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ تقسیمِ ہندوستان کے بعد کس طرح ان مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا تھا جن کی قیام پاکستان سے قبل سب عزت کرتے تھے۔
یہ فلم مشہور بھارتی اداکار بلراج ساہنی کی آخری فلم تھی جب کہ اسی فلم کے ذریعے اداکار فاروق شیخ نے ڈیبیو کیا تھا اور اداکارہ شبانہ اعظمی کی والدہ شوکت اعظمی، یونس پرویز، جلال آغا اور اے کے ہینگل جیسے اداکاروں نے فلم میں اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔
7۔ 1942 اے لو اسٹوری
ہدایت کار ویدھو ونود چوپڑا کی اس فلم کی کہانی تحریکِ آزادی کے ان دنوں کے گرد گھومتی ہے جب اس وقت کی حکومت نے قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا ہوا تھا۔
فلم میں معروف اداکار انیل کپور، جیکی شروف، انوپم کھیر، منیشا کوئرالا سمیت ڈینی اور پران نے بھی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔
یہ فلم مشہور موسیقار راہول دیو برمنکی کی آخری فلم تھی اور انہیں کریئر کا تیسرا فلم فیئر ایوارڈ بھی اسی فلم پر ملا تھا۔
مجموعی طور پر ’1942 اے لو اسٹوری‘ کو فلم فیئر ایوارڈز میں 13 نامزدگیاں ملی تھیں جس میں بہترین فلم، بہترین ہدایت کار، بہترین اداکار و اداکارہ کے علاوہ تمام ایوارڈز اس فلم کو ملے تھے۔
8۔ ارتھ 1947
جب دیپا مہتا نے پاکستانی نژاد امریکی مصنفہ بپسی سدھوا کے ناول 'آئس کینڈی مین' پر فلم بنانے کا اعلان کیا تو انہیں ہر طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
لیکن دیپا مہتا نے بڑی مہارت سے ایک ایسی کہانی پردے پر پیش کی جس میں بھارت کے بٹوارے کے سائے تلے لاہور کے دو مسلم نوجوانوں کو ایک ہندو لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے۔
فلم میں ہندو مسلم اور سکھ فسادات کا بھی تذکرہ ہے۔
9۔ پنجر
معروف مصنفہ امریتا پریتم کے ناول 'پنجر' سے ماخود اس فلم کو بھارت میں قومی سطح پر یکجہتی کو فروغ دینے کی وجہ سے 'نیشنل ایوارڈ' سے نوازا گیا تھا۔
فلم کی کہانی ایک ایسی لڑکی کے گرد گھومتی ہے جسے ایک مسلمان لڑکا اغوا کر کے لے جاتا ہے۔
اداکار سنجے سوری، پریانشو چیٹرجی، سندلی سنہا اور فریدہ جلال بھی اس فلم کا حصہ تھے اور ان کی اداکاری کو شائقین نے بے حد پسند کیا تھا۔
10۔ خاموش پانی
پاکستانی فلم ساز صبیحہ سومار کی ہدایت کاری میں بننے والی اس فلم نے دنیا بھر میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے تھے۔
فلم میں اداکار عدنان شاہ ٹیپو، سلمان شاہد اور ارشد محمود سمیت بھارتی ادکار انوپم کھیر کی اہلیہ کرن کھیر نے بھی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔
یہ فلم ایک ایسی سکھ عورت کے گرد گھومتی ہے جو 1947 کے فسادات میں خودکشی کرنے کے بجائے زندہ رہنے کو ترجیح دیتی ہے اور اس کے گھر میں یہ بات کسی کو معلوم نہیں ہوتی کہ وہ مسلمان نہیں ہے۔
اس فلم کو لوکارنو فلم فیسٹیول سمیت دنیا کے بڑے بڑے فلم فیسٹیول میں بھیجا گیا تھا جسے خوب پسند بھی کیا گیا تھا۔
فلم میں اداکارہ کرن کھیر کو ان کی بہترین اداکاری پر لوکارنو فلم فیسٹیول میں بہترین اداکارہ کا ایوارڈ ملا تھا جب کہ صبیحہ سومار نے بھی چار ایوارڈز اپنے نام کیے تھے۔
11۔ گاندھی
سن 1982 میں ریلیز ہونے والی فلم ’گاندھی‘ کی کہانی مہاتما گاندھی کے گرد گھومتی ہے لیکن اس میں ان تمام واقعات اور شخصیات کا بھی ذکر ہے جس نے انہیں موہن داس کرم چند گاندھی سے مہاتما گاندھی بنایا۔
مشہور ہدایت کار رچرڈ ایٹن برا کے زیرِ نگرانی اس فلم میں اداکار بین کنگزلی نے گاندھی کا کردار ادا کیا تھا۔
فلم گاندھی کے پاس ایک انوکھا ریکارڈ یہ بھی ہے کہ اس میں ایک سین میں تین لاکھ کے قریب ایکسٹراز استعمال کیے گئے۔ یہ سین گاندھی کے مرنے کے بعد کا ہے جس میں عوام کا ایک ہجوم دکھایا جاتا ہے۔
فلم نے 1982 کے اکیڈمی ایوارڈز میں دھوم مچا دی تھی اور 11 کیٹیگریز میں نامزد ہوئی تھی۔ ’گاندھی‘ گیارہ میں سے آٹھ ایوارڈز حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔
ہدایت کار رچرڈ ایٹن برا کو بہترین فلم اور بہترین ہدایت کار کا ایوارڈ ملا تھا جب کہ بین کنگزلی کو بہترین اداکار اور فلم نے بہترین اسکرین پلے، آرٹ ڈائریکشن، سنیماٹوگرافی، کوسٹیوم ڈیزائن، اور ایڈیٹنگ میں بھی ٹرافی حاصل کی تھی۔
12۔ پارٹیشن
ہدایت کار کین مک مولن کی فلم 'پارٹیشن' کا اسکرین پلے مشہور مصنف طارق علی نے کیا تھا لیکن یہ سعادت حسن منٹو کی کہانیوں سے ماخوذ تھی۔
اس فلم میں جہاں بھارتی اداکار سعید جعفری اور زہرا سہگل نے مرکزی کردار ادا کیا تھا وہیں دیگر کاسٹ میں پاکستانی اداکار ضیا محی الدین اور بھارتی اداکار روشن سیٹھ بھی شامل تھے۔
فلم کی کہانی ایک ایسے نفسیاتی اسپتال کے گرد گھومتی ہے جس میں قید مریض ضرور ہیں، لیکن ان لوگوں سے کم جو اس بٹوارے کو خونی بنانے پر تلے ہوئے تھے۔ اس فلم کو ناظرین نے بے حد پسند کیا تھا، اور آج بھی اسے پارٹیشن کے عنوان پر بننے والی فلموں میں ٹاپ پوزیشن حاصل ہے۔
13۔ جناح
پاکستانی نژاد برطانوی ہدایت کار جمیل دہلوی نے جب ڈریکولا کے کردار سے شہرت پانے والے اداکار کرسٹوفر لی کو قائد اعظم محمد علی جناح کی بائیوپک میں کاسٹ کیا تو ہر جگہ اس پر تنقید ہوئی لیکن جب فلم 1998 میں ریلیز ہوئی تو ناظرین نے انہیں خوب پسند کیا۔
کرسٹوفر لی نے نہ صرف اس فلم میں جناح کا کردار بخوبی نبھایا بلکہ اسے امر بھی کر دیا۔
فلم کی کہانی قائد اعظم کی زندگی کے اہم واقعات کے گرد گھومتی ہے جس میں ان کی بیوی رتی جناح کی موت، بیٹی دینا سے دوری اور قیامِ پاکستان شامل ہے۔
مشہور بالی وڈ اداکار ششی کپور نے اس فلم میں اہم کردار ادا کیا تھا جب کہ پاکستانی اداکار شکیل، طلعت حسین، ونیزہ احمد اور خیام سرحدی سمیت بالی وڈ اداکار مارک زوبر بھی اس فلم کا حصہ تھے۔
14۔ ٹرین ٹو پاکستان
مشہور بھارتی مصنف خوشونت سنگھ کے ناول 'ٹرین ٹو پاکستان' کو کئی فلم سازوں نے پردے پر پیش کرنے کی کوشش کی لیکن ہدایت کارہ پامیلا روکس کی کوشش سب سے کامیاب رہی۔
فلم میں نرمل پانڈے، راجیت کپور، سمتری مشرا اور دیویا دتا نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
فلم کی کہانی ایک ایسے گاؤں کے گرد گھومتی ہے جس میں مسلمان اور سکھ ہنسی خوشی رہتے ہیں لیکن ان کی زندگی اور تعلقات اس وقت یکسر تبدیل ہوجاتے ہیں جب ہندو مسلم فسادات کے دوران ایک ایسی ٹرین پاکستان سے بھارت پہنچتی ہے جس میں صرف لاشیں ہی لاشیں ہوتی ہیں۔