فرانس کی پیرس ویسٹ یونیورسٹی کے Pierre Guerlain کہتے ہیں کہ اگر کسی کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے والے کارٹونوں کے بارے میں شکایت کو کامیاب ہونا ہے تو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ کارٹون نسل پرستی پر مبنی ہیں۔
20 مسلمان ملکوں میں فرانس کے سفارت خانے، قونصلیٹ اور انٹرنیشنل اسکول جمعے کے روز بند کر دیے گئے۔ اس ہفتے کے شروع میں فرانس کے ایک مزاحیہ رسالے میں پیغمبرِ اسلام کو کارٹونوں کی شکل میں دکھایا گیا تھا ۔ ان کارٹونوں کے خلاف جو رد عمل ہوا ہے اس کے جواب میں فرانس کی حکومت نے اس بات پر زور دیا ہے کہ فرانس میں اظہارِ رائے کی ضمانت دی گئی ہے ۔ لیکن بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ آزادیٔ تقریر کے معاملے میں، فرانس اور بعض دوسرے یورپی ملکوں نے، دوہرے معیار اپنائے ہوئے ہیں۔
فرانس کی حکومت نے کہا ہے کہ ان کارٹونوں سے جن لوگوں کے جذبات مجروح ہوئےہیں، وہ اس معاملے کو عدالت میں لے جا سکتے ہیں ۔
اطلاع کے مطابق، کم از کم ایک مسلمان گروپ نے پیرس میں پراسیکیوٹرز کے پاس پہلے ہی فوجداری شکایت درج کرا دی ہے ۔ سرکاری وکیلوں کو ابھی یہ طے کرنا ہے کہ کوئی قانونی کارروائی کی جائے گی یا نہیں۔
اس سے قبل جب مذہبی گروپوں کی دل آزاری کرنے کے الزام میں ہفتے وار رسالے Charlie Hebdo کے خلاف مقدمے دائر کیے گئے ہیں، تو ان کا فیصلہ رسالے کے حق میں ہوا ہے ۔ چار سال قبل، جب اس رسالے نے پیغمبرِ اسلام کے بارے میں وہ کارٹون شائع کیے جو اس سے پہلے ڈنمارک کے ایک رسالے میں شائع ہو چکے تھے، تو اس نے وہ مقدمہ جیت لیا تھا جو اس کے خلاف دائر کیا گیا تھا۔
2008 میں جب اس رسالے نے پوپ کا کارٹون شائع کیا، تو اس کے خلاف شکایت درج کرائی گئی تھی لیکن وہ بھی ناکام رہی تھی۔
فرانس کی پیرس ویسٹ یونیورسٹی کے Pierre Guerlain کہتے ہیں کہ اگر ان کارٹونوں کے بارے میں شکایت کو کامیاب ہونا ہے تو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ کارٹون نسل پرستی پر مبنی ہیں۔ فرانس میں مذہبی وجوہ، کافی نہیں ہوتیں۔
وہ کہتے ہیں کہ مذہب پر تنقید کرنا مقبول قومی مشغلہ ہے ۔انگریزی بولنے والے ملکوں میں لوگوں کا خیال ہے کہ فرانس کیتھولک ملک ہے ۔لیکن یہ مفروضہ غلط ہے ۔یہاں بیشتر لوگ سیکولر، لا دین یا دہریے ہیں۔ وہ مذہبی شعائر پر عمل نہیں کرتے۔ اور روایتی طور پر، فرانس میں بائیں بازو کی تحریک نے اپنی بنیاد کیتھولک چرچ کی مخالفت پر رکھی تھی۔لہٰذا، فرانس میں مذہب کی مخالفت کی روایت بڑی طویل ہے اور یہ مخالفت دوسرے مذاہب تک پھیلی ہوئی ہے ۔
جمعے کے روز فرانسیسی حکام نے تصدیق کی کہ انھوں نے کارٹونوں کے خلاف ہر قسم کے مظاہروں پر پابندی لگا دی ہے ۔وزیرِ داخلہ نے کہا کہ پورے ملک میں انتظامیہ کو حکم دیا گیا ہے کہ اگر کوئی اس پابندی کی خلاف ورزی کرے تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
Geurlain کہتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے اس قسم کے اقدام سے آزادیٔ تقریر کی اقدار کو نقصان پہنچتا ہے۔
ان کا کہناہے کہ جب آپ فرانس میں کسی مظاہرے کو ممنوع قرار دیتے ہیں، تو آپ ہمیشہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ امن و امان کے لیے خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ آپ کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ آپ تقریر پر پابندی نہیں لگا رہےہیں، بلکہ کسی کارروائی کو ، یا کسی اقدام کو ممنوع قرار دے رہے ہیں۔ لیکن جہاں تک اس مظاہرے کا تعلق ہے، اگر آپ اظہارِ رائے کے راستے بند کر رہے ہیں، تو میرے خیال میں آپ مسئلے کو اور زیادہ سنگین بنا رہےہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ فرانس میں آزادیٔ تقریر بڑا پیچیدہ مسئلہ ہے ۔ ایک طرف تو فرانس نے انسانی حقوق کے یورپی کنونشن پر دستخط کیے ہیں، جس میں آزادیٔ تقریر کا دفاع کیا گیا ہے ،لیکن دوسری طرف اس آزادی کی کچھ حدود ہیں۔ مثلاً 1990 کے Gayssot Act کے تحت، ہولو کاسٹ سے انکار سمیت ، ہر قسم کی نسل پرستی، یہود دشمن یا غیر ملکیوں سے نفرت پر مبنی سرگرمیوں کی ممانعت ہے۔
Guerlain کہتے ہیں کہ آزادیٔ تقریر کے اصول کو جو استثنیٰ دیے گئے ہیں، ان سے الجھن پیدا ہو سکتی ہے ۔ کیونکہ فرانس میں "Loi Gaysott." پر عمل ہو رہا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تقریر کی بعض اقسام کو تحفظ حاصل ہے، لیکن بعض دوسری اقسام کو تحفظ نہیں دیا جاتا۔ اس طرح انتہائی دائیں بازو کے لوگوں اور اسلامی بنیاد پرستوں کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا ہے کہ ان کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیا جاتا ہے ۔
Matt Rojansky امریکہ میں قائم ریسرچ تنظیم Carnegie Endowment for International Peace سے وابستہ ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ یورپ میں فرانس کے علاوہ اور بھی ملک ہیں جہاں تقریر کی آزادی پر پابندیاں عائد ہیں۔ اس طرح منافقت اور دو عملی کا تاثر پیدا ہوتا ہے ۔
ان کا کہناتھا کہ پاکستان ، الجزائر اور دوسرے ملکوں میں رہنے والے مسلمان اس بات سے بے خبر نہیں ہیں کہ یورپ کے بعض ملکوں میں سر پر حجاب لینا ممنوع قرار دے دیا گیا ہے ۔ وہ یہ بات سمجھتے ہیں کہ یورپ میں آزادیٔ تقریر پر بعض پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ لیکن پھر وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ان ملکوں میں، دوسرے لوگ، ان کے خیال میں ،سنگین خلاف ورزیوں کاارتکاب کر سکتے ہیں، وہ کارٹون شائع کر سکتے ہیں اور جو چاہیں کہہ سکتےہیں۔ قوم پرست سیاستداں بہت سے باتیں کہتے ہیں، اور ان چیزوں کو تحفظ دیا جاتا ہے ۔ لہٰذا، مسلمان محسوس کرتے ہیں کہ یہ سرا سر منافقت ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ جب تک یورپ اس تضاد کو دور نہ کرے، مسلمانوں کا استدلال صحیح ہے ۔
وہ کہتے ہیں کہ یورپ میں آزادیٔ تقریر کو محدود کرنے والے قوانین اس جذبے کے تحت بنائے گئے ہیں کہ جن ملکوں میں تارکینِ وطن بڑی تعداد میں آباد ہیں، ان میں ایسی آبادیاں قائم کی جائیں جن میں سب لوگ مل جل کر رہیں۔
Rojansky کہتے ہیں کہ بہت سے یورپی ملکوں میں ایسے معاشرے میں موجود ہیں جن کے تاریخی تعلقات تلخیوں سے بھر پور ہیں۔ ان ملکوں کے تاریخی ورثے میں جنگیں، تصادم اور نوآبادیاں شامل ہیں۔ آزادیٔ تقریر کو محدود کرنے کی ایک وجہ یہ خواہش ہے کہ ماضی کی یہ تلخیاں ابھرنے نہ پائیں
ان کا کہناہے کہ یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ سیاسی لیڈر تقریر اور اظہارِ رائے کے بعض عناصر کو دبا کر رکھنا چاہتےہیں کیوں کہ ا ن باتوں کے عام ہونے سے تشدد، قوم پرستی اور علیحدگی کی تحریکوں، نیو نازی ازم، وغیرہ کے منفی رجحانات کو فروغ ملے گا۔ ان کی یہ خواہش قابلِ فہم ہے لیکن میرا پھر بھی یہی خیال ہے کہ ایسا کرنا غلط ہے ۔ کیوں کہ اگر آپ اپنے سماجی نظام کی تعمیر اس بنیاد پر کرتے ہیں کہ اس میں کچھ مخفی گوشے ہوں گے، جن کے بارے میں کسی کو کچھ کہنے کی اجازت نہیں ہوگی، تو یہ ہمیشہ آپ کے کمزور پہلو ہوں گے ۔
Charlie Hebdo نے پیغمبرِ اسلام کے بارے میں جو کارٹون شائع کیے ہیں اس میں ان کی تذلیل کی گئی ہے ۔
اس رسالے نے یہ کارٹون دنیا بھر میں پھوٹ پڑنے والے ان احتجاجوں کے بعد شائع کیے جو امریکہ میں ایک پرائیویٹ فلم ساز کے بنائے ہوئے قابلِ مذمت وڈیو کے خلاف ہوئے تھے۔ اس وڈیو میں پیغمبرِ اسلام کی ذات پر رکیک حملے کیے گئے ہیں۔
امریکہ کے صدر براک اوباما نے کھلے عام اس وڈیو کی سخت مذمت کی ہے ۔
فرانس کی حکومت نے کہا ہے کہ ان کارٹونوں سے جن لوگوں کے جذبات مجروح ہوئےہیں، وہ اس معاملے کو عدالت میں لے جا سکتے ہیں ۔
اطلاع کے مطابق، کم از کم ایک مسلمان گروپ نے پیرس میں پراسیکیوٹرز کے پاس پہلے ہی فوجداری شکایت درج کرا دی ہے ۔ سرکاری وکیلوں کو ابھی یہ طے کرنا ہے کہ کوئی قانونی کارروائی کی جائے گی یا نہیں۔
اس سے قبل جب مذہبی گروپوں کی دل آزاری کرنے کے الزام میں ہفتے وار رسالے Charlie Hebdo کے خلاف مقدمے دائر کیے گئے ہیں، تو ان کا فیصلہ رسالے کے حق میں ہوا ہے ۔ چار سال قبل، جب اس رسالے نے پیغمبرِ اسلام کے بارے میں وہ کارٹون شائع کیے جو اس سے پہلے ڈنمارک کے ایک رسالے میں شائع ہو چکے تھے، تو اس نے وہ مقدمہ جیت لیا تھا جو اس کے خلاف دائر کیا گیا تھا۔
2008 میں جب اس رسالے نے پوپ کا کارٹون شائع کیا، تو اس کے خلاف شکایت درج کرائی گئی تھی لیکن وہ بھی ناکام رہی تھی۔
فرانس کی پیرس ویسٹ یونیورسٹی کے Pierre Guerlain کہتے ہیں کہ اگر ان کارٹونوں کے بارے میں شکایت کو کامیاب ہونا ہے تو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ کارٹون نسل پرستی پر مبنی ہیں۔ فرانس میں مذہبی وجوہ، کافی نہیں ہوتیں۔
وہ کہتے ہیں کہ مذہب پر تنقید کرنا مقبول قومی مشغلہ ہے ۔انگریزی بولنے والے ملکوں میں لوگوں کا خیال ہے کہ فرانس کیتھولک ملک ہے ۔لیکن یہ مفروضہ غلط ہے ۔یہاں بیشتر لوگ سیکولر، لا دین یا دہریے ہیں۔ وہ مذہبی شعائر پر عمل نہیں کرتے۔ اور روایتی طور پر، فرانس میں بائیں بازو کی تحریک نے اپنی بنیاد کیتھولک چرچ کی مخالفت پر رکھی تھی۔لہٰذا، فرانس میں مذہب کی مخالفت کی روایت بڑی طویل ہے اور یہ مخالفت دوسرے مذاہب تک پھیلی ہوئی ہے ۔
جمعے کے روز فرانسیسی حکام نے تصدیق کی کہ انھوں نے کارٹونوں کے خلاف ہر قسم کے مظاہروں پر پابندی لگا دی ہے ۔وزیرِ داخلہ نے کہا کہ پورے ملک میں انتظامیہ کو حکم دیا گیا ہے کہ اگر کوئی اس پابندی کی خلاف ورزی کرے تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
Geurlain کہتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے اس قسم کے اقدام سے آزادیٔ تقریر کی اقدار کو نقصان پہنچتا ہے۔
ان کا کہناہے کہ جب آپ فرانس میں کسی مظاہرے کو ممنوع قرار دیتے ہیں، تو آپ ہمیشہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ امن و امان کے لیے خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ آپ کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ آپ تقریر پر پابندی نہیں لگا رہےہیں، بلکہ کسی کارروائی کو ، یا کسی اقدام کو ممنوع قرار دے رہے ہیں۔ لیکن جہاں تک اس مظاہرے کا تعلق ہے، اگر آپ اظہارِ رائے کے راستے بند کر رہے ہیں، تو میرے خیال میں آپ مسئلے کو اور زیادہ سنگین بنا رہےہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ فرانس میں آزادیٔ تقریر بڑا پیچیدہ مسئلہ ہے ۔ ایک طرف تو فرانس نے انسانی حقوق کے یورپی کنونشن پر دستخط کیے ہیں، جس میں آزادیٔ تقریر کا دفاع کیا گیا ہے ،لیکن دوسری طرف اس آزادی کی کچھ حدود ہیں۔ مثلاً 1990 کے Gayssot Act کے تحت، ہولو کاسٹ سے انکار سمیت ، ہر قسم کی نسل پرستی، یہود دشمن یا غیر ملکیوں سے نفرت پر مبنی سرگرمیوں کی ممانعت ہے۔
Guerlain کہتے ہیں کہ آزادیٔ تقریر کے اصول کو جو استثنیٰ دیے گئے ہیں، ان سے الجھن پیدا ہو سکتی ہے ۔ کیونکہ فرانس میں "Loi Gaysott." پر عمل ہو رہا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تقریر کی بعض اقسام کو تحفظ حاصل ہے، لیکن بعض دوسری اقسام کو تحفظ نہیں دیا جاتا۔ اس طرح انتہائی دائیں بازو کے لوگوں اور اسلامی بنیاد پرستوں کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا ہے کہ ان کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیا جاتا ہے ۔
Matt Rojansky امریکہ میں قائم ریسرچ تنظیم Carnegie Endowment for International Peace سے وابستہ ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ یورپ میں فرانس کے علاوہ اور بھی ملک ہیں جہاں تقریر کی آزادی پر پابندیاں عائد ہیں۔ اس طرح منافقت اور دو عملی کا تاثر پیدا ہوتا ہے ۔
ان کا کہناتھا کہ پاکستان ، الجزائر اور دوسرے ملکوں میں رہنے والے مسلمان اس بات سے بے خبر نہیں ہیں کہ یورپ کے بعض ملکوں میں سر پر حجاب لینا ممنوع قرار دے دیا گیا ہے ۔ وہ یہ بات سمجھتے ہیں کہ یورپ میں آزادیٔ تقریر پر بعض پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ لیکن پھر وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ان ملکوں میں، دوسرے لوگ، ان کے خیال میں ،سنگین خلاف ورزیوں کاارتکاب کر سکتے ہیں، وہ کارٹون شائع کر سکتے ہیں اور جو چاہیں کہہ سکتےہیں۔ قوم پرست سیاستداں بہت سے باتیں کہتے ہیں، اور ان چیزوں کو تحفظ دیا جاتا ہے ۔ لہٰذا، مسلمان محسوس کرتے ہیں کہ یہ سرا سر منافقت ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ جب تک یورپ اس تضاد کو دور نہ کرے، مسلمانوں کا استدلال صحیح ہے ۔
وہ کہتے ہیں کہ یورپ میں آزادیٔ تقریر کو محدود کرنے والے قوانین اس جذبے کے تحت بنائے گئے ہیں کہ جن ملکوں میں تارکینِ وطن بڑی تعداد میں آباد ہیں، ان میں ایسی آبادیاں قائم کی جائیں جن میں سب لوگ مل جل کر رہیں۔
Rojansky کہتے ہیں کہ بہت سے یورپی ملکوں میں ایسے معاشرے میں موجود ہیں جن کے تاریخی تعلقات تلخیوں سے بھر پور ہیں۔ ان ملکوں کے تاریخی ورثے میں جنگیں، تصادم اور نوآبادیاں شامل ہیں۔ آزادیٔ تقریر کو محدود کرنے کی ایک وجہ یہ خواہش ہے کہ ماضی کی یہ تلخیاں ابھرنے نہ پائیں
ان کا کہناہے کہ یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ سیاسی لیڈر تقریر اور اظہارِ رائے کے بعض عناصر کو دبا کر رکھنا چاہتےہیں کیوں کہ ا ن باتوں کے عام ہونے سے تشدد، قوم پرستی اور علیحدگی کی تحریکوں، نیو نازی ازم، وغیرہ کے منفی رجحانات کو فروغ ملے گا۔ ان کی یہ خواہش قابلِ فہم ہے لیکن میرا پھر بھی یہی خیال ہے کہ ایسا کرنا غلط ہے ۔ کیوں کہ اگر آپ اپنے سماجی نظام کی تعمیر اس بنیاد پر کرتے ہیں کہ اس میں کچھ مخفی گوشے ہوں گے، جن کے بارے میں کسی کو کچھ کہنے کی اجازت نہیں ہوگی، تو یہ ہمیشہ آپ کے کمزور پہلو ہوں گے ۔
Charlie Hebdo نے پیغمبرِ اسلام کے بارے میں جو کارٹون شائع کیے ہیں اس میں ان کی تذلیل کی گئی ہے ۔
اس رسالے نے یہ کارٹون دنیا بھر میں پھوٹ پڑنے والے ان احتجاجوں کے بعد شائع کیے جو امریکہ میں ایک پرائیویٹ فلم ساز کے بنائے ہوئے قابلِ مذمت وڈیو کے خلاف ہوئے تھے۔ اس وڈیو میں پیغمبرِ اسلام کی ذات پر رکیک حملے کیے گئے ہیں۔
امریکہ کے صدر براک اوباما نے کھلے عام اس وڈیو کی سخت مذمت کی ہے ۔