جوہری مسئلے پر بات چیت میں تیزی لانے کے لیے ہفتے کو فرانس کے وزیر خارجہ نے بظاہر امریکہ اور ایران پر زور بار ڈالا، یہ کہتے ہوئے کہ اب چھ عالمی طاقتوں اور ایران کی جانب سے تمام معاملات میز پر آچکے ہیں، اور ’وقت آگیا ہے کہ فیصلہ کیا جائے‘۔
تاہم، دونوں فریقین نے نیوکلیئر مذاکرات میں تعطل کے خاتمے کے لیے کوششیں کیں جس کے باعث تاریخی سمجھوتے روکا ہوا ہے، جس کے تحت ایٹمی پروگرام پر پابندیوں کے بدلے ایران پر عائد تعزیرات میں نرمی برتی جائے گی۔
ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے پاس اب پیر تک کا وقت ہے کہ وہ جوہری تنازع پر سمجھوتا طے کریں، جس میں حتمی تاریخ کے معاملے پر دو ہفتوں کے دوران تیسری بار گنجائش نکالی گئی ہے، ایسے میں جب ایرانی وفد نے مغربی ملکوں پر سمجھوتے کی راہ میں نئی رکاوٹیں کھڑی کرنے کا الزام لگایا ہے۔
لورے فیبس نے رائٹرز کو بھیجے گئے ایک بیان میں کہا کہ ’اب جب کہ ساری چیزیں میز پر ہیں، وقت آچکا ہے کہ فیصلہ کیا جائے‘۔
یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب فیبس امریکی وزیر خارجہ جان کیری، ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف اور برطانوی وزیر خارجہ فلپ ہیمنڈ سے گفت و شنید کر چکے ہیں۔
اس وقت گوٹ اس پر پھنسی ہوئی ہے کہ ایران بضد ہے کہ اگر کوئی سمجھوتا ہوتا ہے تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے 2006ء سے ہتھیاروں پر ممانعت اور بیلسٹک میزائل پروگرام پر لگنے والی قدغن کو فوری طور پر اٹھایا جائے۔
روس، جو ایران کو اسلحہ فروخت کرتا ہے، اس معاملے پر کھل کر ایران کی حمایت کرتا رہا ہے۔
تاہم، ایک اعلیٰ مغربی سفارت کار نے اِسی ہفتے کے اوائل میں کہا تھا کہ چھ طاقتیں۔۔ امریکی، برطانیہ، جرمنی، فرانس، روس اور چین۔۔ اس معاملے پر متحد رہے، حالانکہ سب کے علم میں ہے کہ روس اور چین اس طرح کی ممانعت کے خلاف ہیں۔
مغربی طاقتوں کو ایک مدت سے یہ شبہ ہے کہ ایران ایٹمی بم تیار کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، اور اپنے عزائم کو چھپانے کے لیے اپنے سولین ایٹمی توانائی کے پروگرام کا سہارا لے رہا ہے، جس الزام کی ایران سختی سے تردید کرتا آیا ہے۔
بات چیت میں حائل دیگر مسائل میں ایران کی فوجی تنصیبات تک رسائی، ایران سے ماضی کی سرگرمیوں پر پوچھ گچھ اور تعزیرات میں نرمی کی مجموعی رفتار کا معاملہ شامل ہے۔
ہفتے کو ظریف سے ملاقات کے بعد، کیری نے ٹوئیٹ کیا: ’اب بھی مشکل معاملات حل طلب ہیں‘۔
دو ہفتے قبل، جب سے کیری ویانا آئے ہیں، دونوں وزرائے خارجہ نے تقریبا ً روزانہ ملاقات کی ہے، جس کا تعلق حتمی تاریخ کے اندر اندر مذاکرات کے عمل کو مکمل کرنا تھا۔ اس معاملے میں ڈیڑھ سال سے زائد وقت لگ چکا ہے، جس کا مقصد ایران کے ساتھ طویل مدتی سمجھوتا کرنا ہے۔
کیری نے جمعے کو اخباری نمائندوں کو بتایا کہ مذاکرات کا ماحول تعمیری نوعیت کا تھا۔
مزید تفصیل بتائے بغیر، اُنھوں نے کہا کہ ’چند اختلافات کو دور کیا جا چکا ہے۔۔۔ واضح طور پر کہا جا سکتا ہے کہ کچھ پیش رفت حاصل ہوئی ہے‘۔
فیبس اور ہیمنڈ بھی ہفتے کو ویانا واپس آگئے ہیں۔
ابھی یہ بات واضح نہیں آیا روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف ہفتے کو ہی واپس پہنچیں گے۔ روسی وزارت خارجہ نے رائٹرز کو بتایا کہ
اُن کے پروگرام کو آخری شکل نہیں دی گئی۔
گذشتہ چند دِنوں سے مذاکرات رکے ہوئے ہیں، جب کہ سفارت کار کیری اور ظریف کے درمیان چیخنے چلانے کی نوبت کی روداد سناتے ہیں۔