فرانس میں پولیس نے مختلف مقامات پر چھاپے مار کر شدت پسندی میں ملوث ہونے کے شبہ میں لگ بھگ ایک درجن مسلمان نوجوانوں کو حراست میں لے لیا ہے۔
فرانسیسی ذرائع ابلاغ کے مطابق پولیس نے پیر کو علی الصباح ملک کے مختلف علاقوں میں ایک ہی وقت چھاپے مارے جن میں 10 سے زائد افراد کو حراست میں لیے جانے کی اطلاعات ہیں۔
حکام نے تاحال ان گرفتاریوں سے متعلق کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا ہے۔ لیکن بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ چھاپے اور گرفتاریاں فرانس میں شدت پسندی کے خلاف گزشتہ کئی مہینوں سے جاری پولیس تحقیقات کا نتیجہ ہیں۔
ذرائع ابلاغ میں آنے والی اطلاعات کے مطابق گرفتار ہونے والوں میں بعض ایسے افراد بھی شامل ہیں جو مشرقِ وسطیٰ جا کر وہاں جاری مسلح شدت پسندی کا حصہ بننے کی تیاری کر رہے تھے۔
پولیس ذرائع کے مطابق گرفتار کیے جانے والوں کی عمریں 19 سے 34 سال کے درمیان ہیں اور ان میں جہاد کے لیے مشرقِ وسطیٰ جانے کا ارادہ کرنے والوں کے ساتھ ساتھ بعض ایسے افراد بھی شامل ہیں جو شام سے واپس لوٹے ہیں۔
حکام کو شبہ ہے کہ شام سے لوٹنے والے یہ افراد وہاں دولتِ اسلامیہ یا اسی قبیل کی کسی دوسری شدت پسند تنظیم سے منسلک رہ چکے ہیں۔
فرانسیسی حکام کا کہنا ہے کہ شدت پسند کارروائیوں میں شرکت کے لیے عراق اور شام کا رخ کرنے والے فرانسیسی شہریوں کی تعداد میں رواں سال جنوری سے 80 فی صد تک اضافہ ہوگیا ہے۔
فرانس کے سکیورٹی اداروں کا خیال ہے کہ 1100 سے زائد فرانسیسی شہری دنیا بھر میں سرگرم مختلف جہادی گروہوں اور شدت پسند تنظیموں کے ساتھ منسلک یا مسلسل رابطے میں ہیں۔
یورپین حکام کا کہنا ہے کہ اب تک لگ بھگ تین ہزار یورپی باشندے شدت پسندوں کی مسلح کارروائیوں میں شریک ہونے کی غرض سے مشرقِ وسطیٰ جاچکے ہیں یا جانے کی ناکام کوشش کر چکے ہیں جن کی بڑی تعداد کا تعلق فرانس اور بیلجئم سے ہے۔
سکیورٹی اداروں کے مطابق ان میں سے کئی افراد نومسلم ہیں جن میں سے کم از کم ایک یورپی نومسلم حال ہی میں سامنے آنے والی دولتِ اسلامیہ کی ایک ویڈیو میں بھی نظر آیا تھا جس میں شدت پسند شامی فوجیوں کے سر قلم کر رہے تھے۔