برطانیہ نے جمعے کے روز دہشت گردی کے خطرے کی سطح کا درجہ ’کافی‘ سے بڑھا کر ’شدید‘ کر دیا ہے، ایسے میں جب برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہےکہ اُن کے ملک اور دنیا کے لیے شدت پسندی پر مبنی ’زہریلی‘ باتیں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔
خطرے کی سطح کو ’شدید‘ درجے تک بڑھانے کے فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ کسی دہشت گرد حملے کا قوی امکان ہو سکتا ہے، جس کا تعلق عراق اور شام کے حالات بتایا جاتا ہے۔ خطرے کی سطح کی پانچ لکیریں ہیں، جن میں ’شدید‘ دوسرے بڑے درجے کی نشاندہی کرتا ہے۔
مسٹر کیمرون نے کہا ہے کہ دہشت گردوں نے اسلام کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے، تاکہ اُن کے شدت پسند عزائم کو فروغ ملے۔
اُنھوں نے کہا کہ دولت الاسلامیہ کے شدت پسندوں کے مسئلے کی بنیاد زیادہ تر یہ ہے کہ عراق کی حکومت کئی سالوں سے ملک کےایک حصے کی آبادی کی نمائندگی کرتی رہی ہے۔
برطانیہ کی وزیر داخلہ، تھیریسا مئی نے کہا کہ کسی امکانی حملے سے متعلق کوئی انٹیلی جنس رپورٹ موجود نہیں ہے۔
لیکن، اُنھوں نے خبردار کیا کہ کچھ سازشوں کا امکان ہوسکتا ہے جن میں ایسے
لڑاکا ملوث ہوسکتے ہیں جن میں برطانیہ اور یورپ سے لڑائی میں حصہ لینے کی غرض سے لوگ مشرق وسطیٰ گئے ہوئے ہیں۔
مسٹر کیمرون نے جمعے کے روز یہ بھی کہا کہ وہ ایسے نئے قوانین وضع کرنے کا سوچ رہے ہیں جن کے ذریعے اُن برطانوی شہریوں کے سفر پر پابندی ہو جو دولت الاسلامیہ کے شدت پسندوں کے ساتھ لڑنے کے لیے، شام یا عراق جانا چاہتے ہوں۔
امریکی صحافی، جمیز فولی کےاندوہناک قتل کے واقعے کے بعد برطانیہ میں انتہا پسندی کی نشاندہی ہوئی، جس میں فولی کا سر قلم کرنے والے دہشت گرد کا لب و لہجہ برطانوی معلوم دیتا تھا۔