اقوام متحدہ اور عالمی تنظیمیں صحافیوں کے تحفظ میں ناکام :سی پی جے

اقوام متحدہ اور عالمی تنظیمیں صحافیوں کے تحفظ میں ناکام :سی پی جے

دی کمیٹی ٹو پرٹیکٹ جرنلسٹس کی رپورٹ کے مطابق 2010 پریس کی آزادی کے لیئے ملا جُلا سال تھا۔ بین الاقوامی قانون اور معاہدوں میں تو آزادی اظہار کی ضمانت دی گئی ہے لیکن بین الاقوامی ادارے جیسے اقوامِ متحدہ اور علاقائی تنظیمیں اس حق کا دفاع کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گذشتہ سال دنیا بھر میں ریکارڈ تعداد میں صحافیوں کو گرفتار کیا گیا۔

دی کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی سالانہ رپورٹ ’’اٹیکس آن دی پریس‘‘ میں 44 رپورٹروں، ایڈیٹروں اور فوٹو گرافروں کی ہلاکت اور 145 دوسرے افراد کے قید کیئے جانے کے واقعات درج ہیں۔ مصنفین کہتے ہیں کہ قید کیئے جانے والوں کی تعداد 1996 کے بعد سے اب تک سب سے زیادہ ہے ۔

قید کیئے جانے والوں کی نصف تعداد کا تعلق ایران اور چین سے تھا یعنی ان دونوں میں سے ہر ملک میں 34 افراد جیل میں ڈالے گئے ۔ایک اور گروپ جس میں گرفتار ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، بلاگرز کا تھا۔ جیل میں ڈالے جانے والے نصف لوگ بلاگرز ہیں۔ رپورٹروں کے لیئے دنیا کا سب سے خطرناک ملک پاکستان تھا۔

سی پی جے کے ایشیا پروگرام کے کو آرڈینیٹر باب ڈیئٹز کہتے ہیں کہ گذشتہ سال وہاں کم از کم آٹھ صحافی ہلاک ہوئے۔’’پاکستان میں ہلاک ہونے والے بیشتر صحافی یا تو گولیوں کی زد میں آگئے یا وہ بمباری کے واقعات یا دہشت گردی کے حملوں کو کور کرتے ہوئے ہلاک ہوگئے ۔ اور ایک دو کو گھات لگا کر نشانہ بنایا گیا۔ اس سال کراچی میں ایک مشہور رپورٹر کو کھلم کھلا نشانہ بنایا جا چکا ہے ۔ ہو یہ رہا ہے کہ افغانستان سے تشدد سرحد پار پاکستان میں منتقل ہو رہا ہے ، اور یوں مقامی پاکستانی صحافیوں کے لیئے کام کرنا افغانستان سے بھی زیادہ خطرناک ہو گیا ہے۔‘‘

لیکن عراق میں جو 2004 اور 2005 میں رپورٹروں کے لیئے انتہائی خطرناک ملک تھا، حالات نمایاں طور سے بہتر ہوئے ہیں۔ سی پی جے کا کہنا ہے کہ وہاں گذشتہ سال پانچ رپورٹر ہلاک ہوئے۔ 2003 میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک یہ تعداد سب سے کم تھی ۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کیوبا میں بھی حالات بہتر ہوئے۔ وہاں 2010 میں 17 صحافیوں کو جیل سے رہائی ملی ۔ یہ نتیجہ تھا مسلسل رابطوں کا اور ان کی رہائی کے لیئے انتھک کوششوں کا۔ بین الاقوامی سطح پر طویل مدت تک اس مسئلے پر توجہ نہ دی جاتی تو ان لوگوں کو رہائی نہیں مل سکتی تھی۔

اٹیکس آن دی پریس میں لاطینی امریکہ اور چین میں سینسر شپ کے بڑھتے ہوئے رجحانات، افریقہ میں تفتیش و تحقیق کرنے والے رپورٹروں کے خلاف انتقامی کارروائی، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں خبروں اور آرا کو دبانے کے لیئے انسداد دہشت گردی کے قوانین کے استعمال کے واقعات بھی درج ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں کے قتل کی 90 فیصد وارداتوں میں مجرموں کا سراغ نہیں لگایا جا سکے گا، اور جو لوگ ہلاک ہوئے ان میں سے 60 فیصد سے زیادہ کو ہلاک کیئے جانے سے ہفتہ بھر پہلے دھمکیاں دی گئی تھیں۔

سی پی جے نے کہا ہے کہ اس قسم کے جرائم کا ارتکاب جس دیدہ دلیری سے کیا جاتا رہا ہے، اس کا خاتمہ ضروری ہے ۔

لیکن اس تنظیم نے جو ساری دنیا میں پریس کی آزادی کے لیئے کام کرتی ہے، صرف انفرادی حکومتوں پر ہی تنقید نہیں کی کہ وہ پریس کی آزادی کی حفاظت میں ناکام رہی ہیں۔ تنظیم نے اقوام متحدہ، آرگنائزیشن آف امریکن اسٹیٹس اور افریقی یونین جیسے عالمی اداروں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ انھوں نے پریس کی آزادی کے دفاع میں نیم دلی سے اقدامات کیئے ہیں۔

CPJ کے ڈائریکٹر جوئل سیمون اقوام متحدہ میں ایک نیوز کانفرنس میں خاص طور سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون پر تنقید کی، کہ اور چیزوں کے علاوہ، انھوں نے گذشتہ سال کا امن کا نوبیل انعام جیتنے والے لیو ژیابو کو مبارکباد نہیں دی۔ وہ انسانی حقوق کے لیئے جد و جہد کرنے والے چینی باشندے ہیں جو آج کل جیل میں ہیں۔ سیمون نے کہا کہ اقوام متحدہ کو اور خاص طور سے سیکرٹری جنرل کو آزادیٔ اظہار اور پریس کی آزادی کی حمایت میں کھل کر آواز بلند کرنی چاہیئے ۔

ان کا کہنا ہے’’بعض اوقات انھوں نے مثبت بیانات دیے ہیں، لیکن ہم نے اب تک یہ نہیں دیکھا کہ انھوں نے اس معاملے میں باقاعدگی سے کوئی واضح موقف اختیار کیا ہو۔ اور یکسانیت اور باقاعدگی بہت اہم ہے کیوں کہ اس سے اصول پرستی پر قائم رہنے کے عزم کا اظہار ہوتا ہے۔ ہم یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘

مسٹر بان کے ترجمان نے اس تنقید کو مسترد کر دیا، اور کہا کہ سیکرٹری جنرل اپنے عوامی بیانات میں اور درپردہ کوششوں میں مسلسل پریس کی آزادی کے بارے میں اپنی آواز بلند کرتے رہے ہیں۔