بین الاقوامی کانفرنس میں شریک وفود نے شام کی اپوزیشن کی بغاوت کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ خلیج کی متعددریاستوں نے شام کے صدر بشار الاسد کو ہٹانے کے لیےکوشاں باغیوں کو تنخواہ دینے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔
اتوار کو ترکی کے شہر استنبول میں ’فرینڈس آف سیریا‘ کی طرف سے منعقدہ کانفرنس میں شرکاٴ کا کہنا تھا کہ خلیج اقوام کا ایک مختصر گروپ باغیوں کو تنخواہیں دینے کے لیے’سیریئن نیشنل کونسل‘ کے کلیدی اپوزیشن کو کروڑہا ڈالرز فراہم کرے گا۔
وفود نے، جنھوں نے نام نہ بتانے کی شرط پر بات کی، کہا کہ اِس کا مقصد مسٹر اسد کی فوج کے مزید ارکان کو بغاوت پر اکسانا ہے، تاکہ وہ سال بھر سے جاری شورش کی قیادت کرنے والے مخالفین کے گروہوں میں شامل ہو جائیں۔
امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے اجلاس کو بتایا کہ امریکہ شام میں اپوزیشن کے سرگرم کارکنوں کو رسل و رسائل کےذرائع کے آلات فراہم کر رہا ہے، تاکہ وہ منظم ہو سکیں اور بیرونی دنیا سے رابطے میں رہیں اور حکومتی حملوں سے بچ سکیں۔
ہلیری کلنٹن نے کہا کہ ساتھ ہی، امریکہ مسٹر اسد کی طرف سے سرکشی کے خلاف کی جانے والی پُر تشدد کارروائیوں کے نتیجے میں ہونے والی زیادتیوں کی دستاویز تیار کرنے کا انتظام کر رہا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اس پروگرام کے ذریعے شامیوں کو مظالم ڈھانے والوں کی شناخت کرنے میں مدد ملے گی اور مستقبل میں ہونے والی تفتیش اور سزاؤں کے سلسلے میں ثبوت کو محفوظ کرنے میں معاونت ہوگی۔
اعلیٰ ترین امریکی سفارت کار نےتنازع کے باعث متاثر ہونے والے شامیوں کو انسانی بنیادوں پر دی جانے والی امریکی امداد کو دوگنا کرکے دو کروڑ 50لاکھ ڈالر کرنے کا اعلان کیا، اور کانفرنس میں شریک 60سے زائد ممالک سے اپیل کی کہ وہ حکومت شام پر عائد تعزیرات کو سخت بنائیں۔ اُنھوں نے مسٹر اسد کو متنبہ کیا کہ وہ ’ اپنے ہی ہم وطنوں کو ہلاک کرنے سے باز رہیں، ورنہ سخت ترین نتائج کے لیے تیار ہو جائیں‘۔
شامی انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں نے کہا ہے کہ اتوار کے روز ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے حملوں کے دوران کم از کم 16افراد ہلاک ہوئے، جِن میں فوجی، باغی اور شہری شامل ہیں۔
سکریٹری کلنٹن نے کہا کہ رواں ہفتے کے آغاز پر مسٹر اسد کا اقوام متحدہ کے توسط سے پیش کیے گئے امن منصوبے کو قبول کرنا ، شامی لیڈر کی طرف سے’ وعدہ خلافی کی طویل فہرست ‘ کا ایک حصہ ہے۔
کانفرنس سے خطاب میں ’سیریئن نیشنل کونسل‘ کے سربراہ برہان غلیون نے شرکا ٴ ممالک پر زور دیا کہ وہ ’ آزاد شامی فوج‘ کو مضبوط کریں اور ملک کے اندر انسانی بنیادوں پر امداد کے مراکز قائم کریں۔
کانفرنس کے میزبان، ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اُردگان نے اپنے خطاب میں کہا کہ اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل حکومتِ شام کی طرف سے کیے جانے والے کریک ڈاؤن کو روکنے میں ناکام ہوتی ہے، تو بین الاقوامی برادری کو، بقول اُن کے، شامی عوام کے ’ذاتی دفاع کے حق‘ کی حمایت کرنا فرض بن جائے گا۔ ترکی کے وزیر خارجہ احمد داؤداوگلو نے کہا کہ ترکی ’ سیریئن نیشنل کونسل‘ کو تمام شامیوں کے ’حقیقی نمائندے‘ کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔
تاہم، عراقی وزیر اعظم نوری المالکی نے اتوار کو کہا کہ اُن کی حکومت شامی اپوزیشن کو مسلح کرنے اور اسد کی حکومت کو ہٹانے کی کوششوں کو مسترد کرتی ہے، کیونکہ اِس کے باعث، ’ خطے میں وسیع تر بحران‘ پیدا ہوگا۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ایک سال قبل شروع ہونے والی بغاوت کے باعث شام میں اب تک 9000سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔