بلوچستان میں پولیس کے مبینہ تشدد سے ہلاک ہونے والے پشتون تحفظ تحریک کے رکن ارمان لونی کی تدفین قلعہ سیف اللہ میں اُن کے آبائی قبرستان میں کر دی گئی۔ اُن کی نماز جنازہ میں پی ٹیم ایم کے سربراہ منظور پشتین اور تحریک کے مرکزی رہنماؤں محسن داوڑ اور علی وزیر نے بھی شرکت کی۔ ان کے علاوہ پختونخوا عوامی پارٹی کے رہنما نواب ایاز جوگیزئی اپنے سیکڑوں کارکنوں کے ہمراہ جنازے میں شریک ہوئے۔
پی ٹی ایم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ارمان لونی ہفتے کی رات پولیس کے مبینہ تشدد سے ہلاک ہو گئے تھے جبکہ پولیس کے مطابق اُن کی ہلاکت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہے۔
بلوچستان کی صوبائی حکومت نے منظور پشتین سمیت پشتون تحفظ موومنٹ کے دیگر رہنماؤں کی کوئٹہ آمد اور کسی جلسے میں شرکت کرنے پر پہلے ہی پابندی عائد کر رکھی ہے۔
اطلاعات کے مطابق منظور پشتین، محسن داوڑ اور دیگر رہنماؤں کو شیرانی دانہ سر چیک پوسٹ پر فرنٹیئر کور نے بلوچستان میں داخل ہونے سے روک لیا تھا لیکن وہ قلعہ سیف اللہ پہنچ گئے۔
انتظامیہ نے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں بھی دفعہ 144 کے تحت چار یا چار سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی عائد کر دی تھی۔
قبل اذیں پی ٹی ایم رہنما اور رکنِ قومی اسمبلی محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی صوبائی انتظامیہ نے اُن کے داخلہ پر پابندی کے حوالے سے ایک نیا آرڈر جاری کیا ہے۔
اس کے ساتھ ایک اور اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ ژوب لورالائی ڈویژن میں پندرہ روز تک کسی بھی قسم کا آتشیں اسلحے کی نمائش یا استعمال، جلسے جلوس، دھرنوں، چار یا چار سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے واقعہ کا نوٹس لیا ہے اور لورالائی پولیس حکام سے واقعہ کی رپورٹ فوری طور پر طلب کر لی ہے۔
صوبائی وزیر داخلہ ضیا لانگو نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت واقعے کی تحقیقات کر کے حقائق کو منظرِ عام پر لائے گی اور ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔
ارمان لونی کی ہلاکت کیسے ہوئی؟
لورالائی سٹیزن ایکشن کمیٹی کے رُکن اخلاص خان نے وائس آف امر یکہ کو بتایا کہ لورالائی میں پولیس کمپلیکس پر حملے اور اس میں مقامی نوجوانوں کی ہلاکتوں کے خلاف پشتون تحفظ موؤمنٹ کے کارکنوں نے گزشتہ تین دنوں سے پرلیس کلب لورالائی کے سامنے دھرنا دیا ہوا تھا۔
ہفتے کی رات وہاں پولیس کے اعلیٰ حکام دھرنے میں آئے اور انھوں نے دھرنا ختم کرنے کا کہا۔ جس پر پی ٹی ایم کے مقامی رہنماؤں نے پولیس کو بتایا کہ اتوار کو لورالائی کی تمام سیاسی جماعتیں حالیہ دہشت گردی کے واقعات پر غور کرنے کے لیے اجلاس کر رہی ہیں جس کے بعد یہ دھرنا ختم کر دیا جائے گا۔
اس دوران غالباً پولیس حکام اور پی ٹی ایم کے رہنماؤں کے درمیان تکرار ہوئی اور بقول پی ٹی ایم کارکنوں کے، پولیس اہلکاروں نے ابراہیم خان ارمان لونی کو بندوق کا بٹ مارا جس سے وہ زخمی ہوکر زمین پر گر پڑے۔ جب انھیں اسپتال پہنچایا گیا تو ڈاکٹرز نے اُن کی موت کی تصدیق کی۔
Your browser doesn’t support HTML5
لورالائی پولیس کے انسپکٹر ناصر شاہ نے وی او اے کو بتایا کہ ارمان کو گرفتار نہیں کیا گیا نہ ہی تھانے لایا گیا اور تشدد کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پولیس کے مطابق اُن کے موت کی وجہ دل کا دورہ ہے۔ اُنہیں کارڈیئک وارڈ لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے موت کی تصدیق کر دی۔
لورالائی اسپتال کے میڈیکل سُپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر فہیم نے وی او اے کو بتایا کہ ارمان لونی اسپتال پہنچانے سے پہلے ہی دم توڑ گئے تھے اور ہسپتال میں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹروں نے اُنہیں چیک کیا تھا۔
ڈاکٹروں کے مطابق ارمان لونی کے جسم یا سر پر کسی قسم کے تشدد کی نشاندہی نہیں کی۔
واقعے کے خلاف لورالائی میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور پشتون تحفظ مو ؤمنٹ اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے احتجاجی لائحہ عمل کا اعلان کیا ہے جس کے مطابق پیر کو پہلے مرحلے میں بلوچستان کے پشتون اکثریتی اضلاع میں احتجاجی شٹر ڈاؤن ہڑتال کی جائے گی۔
ارمان لونی کون تھے؟
پشتون تحفظ موؤمنٹ کے مرکزی کمیٹی کے رکن ارمان لونی کا اصل نام ابراہیم خان تھا اور اُن کا تعلق لونی قیبلے سے تھا۔ پشتو شاعری سے انھیں لگاؤ تھا اور شاعری میں اُن کا تخلص ارمان تھا۔ وہ اپنے آپ کو ارمان لونی کہلوانا پسند کرتے تھے۔
وہ پشتون تحفظ موؤمنٹ کی تمام سرگرمیوں میں دلچسپی لیتے تھے۔ جس رات اُن کی موت ہوئی اُس سے چند گھنٹے قبل کراچی میں پی ٹی ایم کی ایک سرگرمی میں شرکت کے بعد لورالائی پہنچے تھے جس کا اظہار انہوں نے سوشل میڈیا پر جاری اپنے ایک بیان میں کیا ہے۔
اُن کی بہن وڑانگہ لونی بھی پی ٹی ایم میں کافی سرگرم ہیں اور مختلف مقامات پر اُن کے بھائی بھی اپنی چھوٹی بہن کی تقریر سُننے والوں میں شامل ہوتے تھے۔ اُن کا تعلق بلوچستان کے ضلع سنجاوی سے تھا۔ وہ پشتو ادب سے کافی لگاؤ رکھتے تھے اور ڈگری کالج کوئٹہ میں پشتو کے لیکچرار تھے۔ انہوں نے دو تحقیقی مقالے بھی تحریر کئے تھے۔
ارمان لونی کا مبینہ قتل ایسے موقع پر ہوا ہے جب پشتون تحفظ موؤمنٹ کے قیام کو ایک سال مکمل ہوا ہے ۔اگر اُن کے مبینہ قتل کی تصدیق ہو جاتی ہے تو وہ تحریک کے پہلے مقتول رہنما قرار پائیں گے۔
اُن کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ ارمان لونی نے اُنھیں بتایا تھا کہ اُنہیں نا معلوم فون نمبر سے پی ٹی ایم سے دور رہنے کا کہا جا رہا ہے بصورت دیگر انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں ملی تھیں لیکن وہ ان کی پرواہ نہیں کر تے تھے۔
وائس آف امریکہ اردو کی سمارٹ فون ایپ ڈاون لوڈ کریں اور حاصل کریں تازہ تریں خبریں، ان پر تبصرے اور رپورٹیں اپنے موبائل فون پر۔
ڈاون لوڈ کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
اینڈرایڈ فون کے لیے:
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.voanews.voaur&hl=en
آئی فون اور آئی پیڈ کے لیے:
https://itunes.apple.com/us/app/%D9%88%DB%8C-%D8%A7%D9%88-%D8%A7%DB%92-%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88/id1405181675