پنجاب اسمبلی میں تحریکِ انصاف کے 25 منحرف اراکین کے ڈی سیٹ ہونے کے بعد صوبے کی سیاست نے نیا رُخ اختیار کر لیا ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے تحریکِ انصاف کو تقویت ملی ہے جب کہ مسلم لیگ (ن) کو ایک طرح سے دھچکہ لگا ہےجس سے حمزہ شہباز کی وزارتِ اعلٰی پر بھی سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد پنجاب اسمبلی میں نمبر گیم بھی بہت دلچسپ ہو گئی ہے جس سے آزاد ارکان اور سینئر سیاست دان چوہدری نثار علی خان کا ووٹ بھی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ موجودہ صورتِ حال میں پنجاب میں قائدِ ایوان کا انتخاب دوبارہ ہو گا۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ گورنر وزیرِ اعلٰی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہے۔لیکن اس وقت صوبے میں گورنر نہیں ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار افتخار احمد کہتے ہیں اگر ان نشستوں پر دوبارہ الیکشن ہوتے ہیں تو تحریکِ انصاف ضمنی الیکشن کی طرف نہیں جائے گی بلکہ وہ پورے ملک میں انتخابات کے مطالبے کو دہرائے گی۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے موقع پرستی کا سدِ باب ہوتا نظر آ رہا ہے۔ لیکن اگر کسی جماعت کا قائد اپنی جماعت کے ارکان اسمبلی کو پارٹی پالیسی سے روکنا چاہتا ہے تو وہ لیڈر خود بھی بڑے فیصلے کرے۔
پنجاب اسمبلی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سلمان غنی نے کہا کہ منحرف اراکین کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ عدالتِ عظمی میں فیصلے کے خلاف اپیل کریں۔ جہاں90 روز میں فیصلہ ہو گا۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے پر اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی نے بھی اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے تاریخی قرار دیا ہے۔
ایک ویڈیو بیان میں اُن کا کہنا تھا کہ اگر وہ وزیرِ اعلٰی منتخب ہوئے تو عمران خان کے کہنے پر آدھے گھنٹے کے اندر اسمبلی تحلیل کر دیں گے۔
'الیکشن کمیشن کے فیصلے سے بے یقینی بڑھ گئی ہے'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے بے یقینی مزید بڑھ گئی ہے، لیکن لگتا ہے کہ حمزہ شہباز کی حکومت برقرار رہے گی۔ دوسرے مرحلے میں بھی اُن کے بطور قائدِ ایوان منتخب ہونے کاامکان زیادہ ہے۔
اُن کے بقول یوں دکھائی دیتا ہے کہ حمزہ شہباز کے پاس اکثریت زیادہ ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اِس طرح کی صورت حال میں نہ استحکام ہو سکتا ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی فیصلے لیے جا سکتےہیں جس سے صوبہ ایک طرح سے عدم استحکام کی طرف جا رہا ہے۔
افتخار احمد سمجھتے ہیں کہ صوبہ پنجاب کے دوبارہ قائدِ ایوان کے انتخاب کے لیے جس اُمیدوار کے پاس برتری ہو گی وہ جیت جائے گا، لیکن ایک بات ذہن میں رکھی جائے کہ اِن خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخابات بھی ہونے ہیں۔
سلمان غنی کہتے ہیں کہ ملک میں جاری سیاسی افراتفری اور آئینی بحران اس بات کا متقاضی ہے کہ جلد بڑے فیصلے کر لیے جائیں تاکہ ملک میں جاری بے یقینی کی فضا ختم ہو۔
SEE ALSO: پاکستان کے چاروں صوبے گورنرز کے بغیر، کیا اس طرح ایگزیکٹو اتھارٹی چل سکتی ہے؟الیکشن کمیشن کا فیصلہ
جمعے کو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے منحرف اراکینِ پنجاب اسمبلی کے خلاف بھجوائے گئے ریفرنس پر اتفاقِ رائے سے فیصلہ سنایا۔
تحریکِ انصاف کے 25 منحرف اراکینِ پنجاب اسمبلی نے پارٹی پالیسی کے برخلاف حمزہ شہباز شریف کو ووٹ دیا تھا۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد اراکینِ پنجاب اسمبلی علیم خان، نعمان لنگڑیال، اجمل چیمہ، سعید اکبر خان نوانی، نذیر چوہان، راجہ صغیر احمد، ملک غلام رسول لنگاہ, ملک اسد کھوکھر، محمد سلمان، عائشہ نواز، عظمی کاردار، میاں خالد محمود سمیت 25 پی ٹی آئی اراکین ڈی سیٹ ہو گئے ہیں۔