دنیا بھر کی طرح امریکہ کے حلیف سمجھے جانے والے ملک بھارت میں بھی امریکی صدارتی انتخابات کی بھرپور کوریج کی گئی۔ یہ خبر بیشتر اخبارات اور ٹی وی چینلز کی شہ سرخی رہی جب کہ اب نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کے بھارت کے ساتھ تعلقات کے امکانات پر بحث اور تجزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
بھارت کے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی پائی جاتی تھی اور یہی وجہ ہے کہ رواں برس صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کا دورہ بھی کیا۔ بھارت میں اب یہ بحث جاری ہے کہ کیا بائیڈن انتظامیہ ان رشتوں کو مزید مضبوط کرے گی یا نئے سرے سے تعلقات کا جائزہ لے گی۔
بھارت کے انگریزی اخبار 'دی ٹائمز آف انڈیا' نے 'تبدیلی کی ہوا' کے عنوان سے اپنے اداریے میں جو بائیڈن کی وکٹری اسپیچ کی تعریف کرتے ہوئے بائیڈن انتظامیہ اور بھارت کے متوقع تعلقات کا جائزہ لیا۔
اخبار کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن نے 2008 میں بھارت اور امریکہ کے درمیان نیوکلیائی تعاون معاہدے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ دونوں ملکوں کے باہمی رشتوں کو مضبوط کرنے کے حامی ہیں۔ سیکیورٹی اشتراک کو مضبوط کرنے میں ہمیں چین کے چیلنجز کے پیشِ نظر تسلسل کی امید رکھنی چاہیے۔
اخبار کا مزید کہنا ہے کہ امریکہ میں جمہوریت کی تجدید سب کے لیے ایک اچھی خبر ہے۔
تاہم اخبار کے اداریے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ انسانی حقوق کے معاملے میں جو بائیڈن اور کاملا ہیرس کی پالیسی بھارت کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہے۔ بہر حال اگر انسانی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو بھارت پر بین الاقوامی دباؤ پڑے گا اور یہ بات بھارتی شہریوں کے مفاد میں ہو گی۔
ایک اور کثیر الاشاعت روزنامہ 'ہندوستان ٹائمز' نے اپنے اداریے کا عنوان 'دنیا کا طاقت ور ترین شخص' رکھا ہے۔ اس نے انتخابات اور ووٹوں کی گنتی کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے رویے کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ جو بائیڈن کے دور میں بھارت امریکہ رشتوں پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکہ میں 'سیاسی خانہ جنگی' بھارت کے لیے مفید بھی ہو گی اور نقصان دہ بھی ہو سکتی ہے۔
اخبار کے مطابق امریکہ کی تجارتی پالیسی میں زیادہ تبدیلی نہیں آئے گی۔ اس اخبار کا بھی کہنا ہے کہ جو بائیڈن کے دور میں بھارت میں انسانی حقوق کے سلسلے میں کچھ پریشانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ لیکن آب و ہوا کی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کے معاملات میں امریکہ بھارت کی خواہشات کا احترام کرے گا۔
اخبار کے مطابق مثبت پہلو یہ ہے کہ جو بائیڈن بھی چین کے معاملے میں وہی رویہ رکھ سکتے ہیں جو ڈونلڈ ٹرمپ کا تھا۔ اخبار کے خیال میں جو بائیڈن کے دور میں بھی دونوں ملکوں کے باہمی رشتے مضبوط رہیں گے۔
اخبار 'دی انڈین ایکسپریس' کا کہنا ہے کہ انتخاب جیتنے کے بعد جو بائیڈن نے یہ اشارہ دینا شروع کر دیا ہے کہ وہ متوازن پالیسی اپنائیں گے۔
اخبار کے مطابق امریکہ کے بیشتر دوست ملک بائیڈن کی خارجہ پالیسی سے آگاہ ہیں۔ انہوں نے سینیٹ کی خارجہ تعلقات سے متعلق کمیٹی کے طاقت ور چیئرمین کی حیثیت سے برسوں تک خدمات دی ہیں۔
اخبار کے مطابق جو بائیڈن ٹرمپ نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کی حکومت داخلی اور خارجی محاذ پر زبردست سیاسی برتری کے ساتھ آغاز کرے گی۔
روزنامہ 'اکانومک ٹائمز' کے مطابق جو بائیڈن بھارت کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔ وہ ڈیمو کریٹ سیاست دانوں کے اس پہلے گروپ میں شامل تھے جس نے 1998 میں بھارت کی جانب سے پوکھران نیوکلیائی تجربے کے بعد بھارت کی جانب پالیسی کا رخ موڑا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اخبار کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کے برعکس جو بائیڈن ایسے صدر ہوں گے جو اداروں کے مفاد میں ہوں گے اور جس طرح ٹرمپ کے بارے میں قیاس آرائی نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ کیا کریں گے، بائیڈن کے بارے میں ایسا نہیں ہو گا۔
اخبار کا مزید کہنا ہے کہ جہاں تک بھارت امریکہ رشتوں کا تعلق ہے تو اس معاملے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ کیوں کہ بھارت کے ساتھ امریکی رشتہ شخصیات سے بالاتر ریاستی سطح پر استوار ہو گیا ہے۔
'روزنامہ ہندوستان' کا کہنا ہے کہ ہمارے لیے خوشی کا مقام یہ ہے کہ بھارتی نژاد کاملا ہیرس نائب صدر بننے جا رہی ہیں۔ امریکہ کی طویل جمہوری تاریخ میں کسی خاتون کو اس سے قبل یہ اعزاز حاصل نہیں ہوا تھا۔ تاہم اخبار کا کہنا ہے کہ کاملا ہیرس کے نائب صدر بننے سے بھارت اور افریقی ملکوں کو کیا فائدہ ہو گا یہ وقت بتائے گا۔
اخبار کے مطابق بائیڈن کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ کی بعض پالیسیوں کی وجہ سے دنیا میں امریکہ کے محدود ہوتے کردار کو کیسے بہتر کر سکتے ہیں۔ اخبار کے مطابق ٹرمپ کی سیاست مبینہ طور پر قوم پرستی کی سیاست تھی جس کی وجہ سے وہ امریکہ کی عالمی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹتے چلے گئے۔ خاص طور پر عالمی ادارۂ صحت سے ان کا پیچھے ہٹنا ایک بڑی غلطی تھی جس کا ازالہ بائیڈن کو کرنا ہو گا۔
اخبار کا یہ بھی کہنا ہے کہ بائیڈن کا امتحان یہ ہو گا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری ایمان داری برتیں۔ دنیا کے اختلافات میں مداخلت اور کسی بھی قسم کے فوجی تشدد سے بچیں۔ صرف بھارت ہی نہیں بلکہ پوری دنیا بائیڈن کے امریکہ سے یہی امید کرے گی کہ وہ دنیا کو امن، انصاف، ترقی اور جمہوریت سے نوازیں۔
ہندی روزنامہ 'دینک جاگرن' کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن کے سامنے جتنا بڑا چیلنج داخلی مسائل سے نمٹنے کا ہے اتنا ہی بین الاقوامی مسائل سے بھی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر سب سے بڑا چیلنج چین کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ سے نمٹنا ہے۔ ایران، ترکی اور شمالی کوریا کے بارے میں ان کی ممکنہ پالیسی کا اندازہ تو لگایا جا سکتا ہے لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ چین کے معاملے میں کیا پالیسی اپنائیں گے۔
اخبار کے مطابق بائیڈن کی چین پالیسی پر بھارت کی دلچسپی فطری ہے۔ بائیڈن کی جانب سے افغانستان اور پاکستان کے بارے میں اپنائے جانے والے رویے میں بھی بھارت کی دلچسپی ہو گی۔
SEE ALSO: کاملا ہیرس کے انتخاب پر بھارت میں بھی جشن، مٹھائیاں تقسیماخبار مزید کہتا ہے کہ جہاں تک امریکہ اور بھارت کے باہمی رشتوں کی بات ہے تو اس پر تقریباً سبھی متفق ہیں کہ دونوں ملکوں کے رشتے مضبوط ہوں گے۔
روزنامہ 'جن ستا' کا کہنا ہے کہ بائیڈن ایسے وقت میں صدر منتخب ہوئے ہیں جب دنیا کرونا کی وبا سے جنگ لڑ رہی ہے اور اس کا سب سے زیادہ شکار امریکہ ہے۔ ملک کی معیشت کو دھچکہ لگا ہے۔ لاکھوں افراد بے روزگار ہو گئے ہیں۔ لہذٰا بائیڈن کا سب سے بڑا چیلنج کرونا اور اس سے پیدا صورتِ حال سے نمٹنا ہو گا۔
اخبار کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ بائیڈن اپنے ملک کو درپیش مسائل سے نمٹنے کے اہل ہیں۔ وہ سیاست و انتظامیہ کے منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں۔ تقریباً پانچ عشروں سے سیاست میں ہیں۔ نائب صدر کے منصب پر رہے ہیں۔ انہوں نے کئی صدور کو قریب سے دیکھا ہے۔ ایسے میں اگر دنیا ان سے امیدیں لگائے ہوئے ہے تو غلط نہیں ہے۔
نیوز پورٹل 'دی وائر' کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن بھارت امریکہ رشتوں کو مضبوط کرنے کے حامی رہے ہیں۔ انہوں نے نائب صدر کی حیثیت سے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ لہٰذا یہ امید کی جانی چاہیے کہ ان کے دور میں دونوں ملکوں کے رشتے مزید مستحکم ہوں گے۔
ایک اور نیوز پورٹل 'دی پرنٹ' کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن کے سامنے متعدد چیلنجز ہوں گے جن سے ان کو نمٹنا ہو گا۔ ان میں امیگریشن، چین کے توسیع پسندانہ عزائم، انڈو پیسفک اسٹر ٹیجی، تجارتی اُمور اور انسانی حقوق کے معاملات قابلِ ذکر ہیں۔
سینئر صحافی وید پرتاپ ویدک نے "بائیڈن ہیں تو بہتر ہوں گے بھارت امریکہ رشتے" کے زیر عنوان اپنے تجزیاتی مضمون میں لکھا ہے کہ ٹرمپ کے مقابلے میں بائیڈن زیادہ تجربہ کار اور مہذب ہیں۔ وہ اوباما کے دور میں بھارت کا دورہ کر چکے ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر امریکہ میں بھارت کے سفیر کی حیثیت سے بائیڈن اور کاملا ہیرس سے پوری طرح متعارف ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹرمپ کی مانند بائیڈن انتظامیہ بھی افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی چاہے گی اور اس کام میں وہ بھارت کا سرگرم تعاون بھی چاہے گی۔ پاکستان کے حوالے سے شاید ان کی پالیسی نرم ہو لیکن وہ دہشت گردی کی سختی سے مخالفت کریں گے۔
ایک اور سینئر تجزیہ کار پرفیسر پشپیش پنت نے بھی اپنے کالم میں دونوں ملکوں میں بہتر رشتوں کی امید وابستہ کی ہے۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمیں اپنی امیدوں کو زمینی حقائق سے منسلک رکھنا ہو گا اور احسان کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔
اردو کے سب سے بڑے روزنامہ 'انقلاب' کے اداریے کا عنوان ہے 'جیو بائیڈن' اس کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست سے بھارت میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے حامیوں کو جانے کیوں صدمہ پہنچا ہے۔ شاید ان کا خیال ہے کہ بائیڈن کے دور میں امریکہ بھارت رشتے ویسے نہیں رہیں گے جیسے کہ ٹرمپ کے دور میں تھے۔
اخبار کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے صدر ٹرمپ سے ذاتی روابط استوار کیے تھے اور ہیوسٹن کے پروگرام 'ہاوڈی مودی' میں ٹرمپ کے حق میں انتخابی مہم چلائی تھی۔ لیکن بھارتی امریکیوں نے ان کی اپیل کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور انہوں نے جو بائیڈن اور کاملا ہیرس کو ووٹ دیا۔
اخبار کے مطابق ٹرمپ کے دور میں امریکہ نے ایران کے ساتھ عالمی معاہدے سے خود کو الگ کر لیا تھا وہ معاہدہ پھر سے عالمی سیاست کے نقشے پر ابھر سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ بائیڈن وہ رویہ اختیار نہ کریں جو ٹرمپ کا تھا۔
اخبار کا یہ بھی کہنا ہے کہ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو ممکن ہے کہ بائیڈن اور مودی کے درمیان ٹرمپ مودی جیسی 'پرسنل ڈپلومیسی' نہ رہے لیکن تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ البتہ کشمیر میں انسانی حقوق کے معاملے میں بائیڈن اور ہیرس بھارت پر تنقید کر چکے ہیں۔ انہوں نے شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف بھی آواز اٹھائی تھی۔ بہر حال امید کی جانی چاہیے کہ بائیڈن دور میں بھی دونوں ملکوں کے رشتے مستحکم رہیں گے۔
بھارت کی حکومت اور سیاسی جماعتوں کا ردعمل
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، صدر رام ناتھ کووند اور کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے جو بائیڈن اور کاملا ہیرس کی کامیابی پر انہیں مبارک باد پیش کی ہے اور اس امید کا اظہار کیا ہے کہ ان کے دور میں بھی بھارت اور امریکہ کے رشتے آگے بڑھیں گے اور دونوں ملکوں میں مختلف شعبوں میں تعاون میں تیزی آئے گی۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے بھی جو بائیڈن اور کاملا ہیرس کو مبارک باد پیش کی ہے اور کہا ہے کہ بھارت امریکہ تعلقات جمہوری اصولوں، باہمی مفادات اور عالمی امن کی بنیاد پر قائم ہیں۔
بی جے پی کے سینئر رہنما رام مادھو نے کہا کہ بھارت امریکہ رشتوں کو امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ منتخب صدر جو بائیڈن اور وزیر اعظم نریندر مودی باہمی تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جائیں گے اور ان میں مزید استحکام آئے گا۔
انہوں نے کاملا ہیرس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ نائب صدر کے منصب پر ان کا انتخاب امریکی جمہوریت کی مضبوطی کی جانب اشارہ ہے اور وہ خصوصی مبارک باد کی مستحق ہیں۔
پارٹی ترجمان راجیو چندر شیکھر نے بھی اس امید کا اظہار کیا کہ باہمی رشتے مزید مضبوط ہوں گے۔
نئی دہلی کے سیاسی تجزیہ کاروں نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار پشپیش پنت نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان جو اسٹرٹیجک اور اقتصادی رشتے ہیں وہ مزید آگے بڑھیں گے۔ ان کے بقول امریکہ میں کسی کی بھی حکومت آئے وہ بھارت کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔
ان کے بقول دونوں ملکوں میں متعدد دفاعی معاہدے ہو چکے ہیں اور ابھی حال ہی میں بیکا معاہدہ ہوا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے باہمی رشتے کتنے آگے جا چکے ہیں۔
عالمی اُمور کے تجزیہ کار پشپ رنجن کا کہنا ہے کہ بھارت امریکہ کے ساتھ اپنے تجارتی رشتوں کو بھی مزید مضبوط کرنا اور تجارتی خسارے کو کم کرنے کا خواہش مند ہے۔ اس کے علاوہ وہ ایران سے تیل کی درآمد کا مسئلہ بھی حل کرنا چاہتا ہے۔ کیوں کہ ایران سے تیل کی درآمد بند ہونے سے اس کو بہت نقصان ہو رہا ہے۔
ایک اور تجزیہ کار اسد مرزا کہتے ہیں کہ ایک اہم معاملہ بھارتی شہریوں کے لیے امریکی ویزا کا ہے۔ جو بائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ وہ ویزوں کے اجرا کی تعداد میں اضافہ کریں گے۔