امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو اور وزیرِ دفاع مارک ایسپر بھارت کے دو روزہ دورے پر ہیں۔ وہ اپنے بھارتی ہم منصبوں سے ملاقات اور بات چیت کر رہے ہیں جب کہ منگل کو وزارتی سطح کے 'ٹو پلس ٹو' مذاکرات میں شرکت بھی کریں گے۔
امریکہ اور بھارت کے درمیان وزارتی سطح پر یہ تیسرے مذاکرات ہوں گے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اس موقع پر دونوں ملکوں کے درمیان متعدد معاہدوں پر دستخط ہوں گے۔
بھارت کے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے اپنے امریکی ہم منصب مارک ایسپر سے پیر کو ملاقات کی ہے۔ مارک ایسپر کو اس سے قبل ساؤتھ بلاک میں گارڈ آف آنر بھی دیا گیا۔
بھارتی وزیرِ دفاع نے مارک ایسپر کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو امریکی وزیرِ دفاع کی مہمان نوازی کرنے میں خوشی محسوس ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری بات چیت، جو دفاعی شعبے میں تعاون بڑھانے کے مقصد کے لیے تھی، کافی بامعنی رہی۔ آج کی ملاقات ہمارے دفاعی تعاون میں نیا جوش پیدا کرے گی۔
اس موقع پر بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت، آرمی چیف جنرل منوج مکند نرونے، ایئر چیف مارشل آر کے ایس بھدوریہ اور بھارتی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل کرم بیر سنگھ بھی موجود تھے۔
بات چیت کے آغاز سے قبل بھارت میں امریکہ کے سفیر کینتھ جسٹر نے بپن راوت اور ایڈمرل کرم بیر سنگھ کا خیر مقدم کیا۔
منگل کو ہونے والے بین الوزارتی اجلاس میں، جسے 'ٹو پلس ٹو میٹنگ' بھی کہا جا رہا ہے، باہمی، علاقائی اور بین الاقوامی امور پر بات چیت ہو گی۔
امریکی وزارتِ خارجہ کے ایک بیان کے مطابق 'ٹو پلس ٹو' مذاکرات کے دوران چار اہم امور پر بات چیت ہوگی جن میں علاقائی سیکیورٹی تعاون، دفاعی اطلاعات میں شراکت داری، دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان رابطے اور دفاعی تجارت سے متعلق امور شامل ہیں۔
توقع کی جا رہی ہے کہ دونوں ملک 'بیسک ایکسچینج اینڈ کوآپریٹو ایگریمنٹ' (بیکا) کو حتمی شکل دیں گے۔ اس معاہدے کا مقصد باہمی دفاعی تعاون کو آگے بڑھانا ہے۔
امریکی کے وزرائے خارجہ و دفاع ایسے موقع پر بھارت کے دورے پر ہیں جب امریکہ میں صدارتی انتخابات کی گہما گہمی ہے اور دنیا کرونا کی عالمی وبا سے جنگ لڑ رہی ہے۔
بھارت اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی اور خطے میں چین کی سرگرمیوں کے حوالے سے بھی مائیک پومپیو اور مارک ایسپر کے دورے کو انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
ایک سابق سفارت کار اور سینئر تجزیہ کار راجیو ڈوگرہ کہتے ہیں کہ بھارت اور امریکہ کے رشتوں میں ایسی مضبوطی آ گئی ہے کہ صدارتی انتخابات اور کرونا وبا کا بھی اس پر کوئی اثر نہیں پڑ رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے راجیو ڈوگرہ نے کہا کہ بھارت اور امریکہ، دونوں چاہتے ہیں کہ خواہ کچھ بھی ہو لیکن باہمی رشتے مضبوط سے مضبوط تر ہونے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ 'ٹو پلس ٹو میٹنگ' ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب خطے میں کشیدگی بڑھی ہوئی ہے۔ بھارت اور چین کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ چین اور تائیوان کے درمیان بھی کشیدگی ہے اور جنوبی بحیرۂ چین میں چین کی سرگرمیاں کافی بڑھ گئی ہیں۔
راجیو ڈوگرہ کے بقول یہ سب باتیں باعثِ تشویش ہیں اور اس صورتِ حال میں دونوں ملکوں کے درمیان اس میٹنگ کی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ملکوں کے رشتے اسٹرٹیجک شراکت داری سے آگے بڑھ چکے ہیں۔ البتہ یہ کہنا مشکل ہے کہ بھارت اور امریکہ کے بڑھتے تعلقات کا چین پر کوئی اثر پڑے گا۔ ان کے بقول بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی دونوں ملکوں کا دوطرفہ معاملہ ہے اور اسے ان دونوں ملکوں کو ہی مل کر حل کرنا ہے۔
بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار قمر آغا بھی اس دورے کو بہت اہمیت دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'ٹو پلس ٹو میٹنگ' کے دوران بھارت چین کشیدگی، جنوبی بحیرۂ چین میں چین کی سرگرمیاں، انڈو پیسیفک خطے کے مسائل، افغانستان کی صورتِ حال اور ایران سے بھارت کو تیل کی درآمد جیسے معاملات زیرِ بحث ہوں گے۔
قمر آغا کے مطابق بھارت ایران سے تیل نہیں خرید پا رہا ہے جس کی وجہ سے اس کا بہت نقصان ہو رہا ہے۔ وہ چاہے گا کہ امریکہ اس کو تیل خریدنے کی اجازت دے۔
انہوں نے کہا کہ اس دورے میں کئی اہم معاہدے بھی متوقع ہیں جو دونوں ملکوں کے دفاعی تعلقات کو مزید آگے بڑھائیں گے۔ ان کے بقول اب امریکہ بھارت کے لیے ہتھیاروں کا بہت بڑا سپلائر بن گیا ہے۔
'ٹو پلس ٹو' مذاکرات کے بعد بھارت اور امریکہ کے وزرائے خارجہ اور وزرائے دفاع وزیرِ اعظم نریندر مودی سے بھی ملاقات کریں گے۔
کرونا وائرس کی وبا کے دوران یہ دوسرا موقع ہوگا جب وزیرِ اعظم نریندر مودی کسی بین الاقوامی شخصیت سے ملاقات کریں گے۔ اس سے قبل انہوں نے افغانستان کی اعلٰی مفاہمتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کی تھی۔