بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں پیر سے عالمی معیشتوں کی تنظیم جی ٹوئنٹی کے سیاحت سے متعلق ورکنگ گروپ کا اجلاس شروع ہو گیا ہے۔
چین نے اس اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے جب کہ ترکیہ، سعودی عرب اور مصر بھی اجلاس میں شریک نہیں ہیں۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق مسلمان اکثریت والےتینوں ملکوں نے اس اجلاس میں شرکت کے لیے اپنےوفود کی رجسٹریشن نہیں کرائی۔
جی ٹوئنٹی تنظیم کے ارکان میں بھارت، امریکہ، برطانیہ، چین، روس، سعودی عرب، آسٹریلیا، کینیڈا، جرمنی، فرانس، اٹلی، جاپان، ارجنٹائن، برازیل، انڈونیشیا، میکسیکو، جنوبی افریقہ، جنوبی کوریا اور ترکیہ سمیت یورپی یونین شامل ہے۔
جی ٹوئنٹی ممالک کے سیاحت سے متعلق ورکنگ گروپ اجلاس بھارت کی صدارت میں نئے دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میںہو رہا ہے جس کے لیے سیکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے گئے ہیں۔
بھارت نے یکم دسمبر 2022 کو جی ٹوئنٹی کی صدارت سنبھالی تھی اور اس سال پہلی بار جی ٹوئنٹی کے سربراہی اجلاس کی میزبانی انجام دے رہا ہے۔ بھارت اس منصب پر 30 نومبر 2023 تک فائز رہے گا۔
گروپ کا اجلاس کشمیر میں سرینگر کی مشہور ڈل جھیل کے کنارے واقع ایک کانفرنس ہال میں ہو رہا ہے۔مندوبین نئی دہلی سے ایک خصوصی پرواز کے ذریعے سرینگر پہنچے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اجلاس کے شرکا کو ڈل جھیل کی سیر کرائی جائے گی اور پھر سرینگر کے مضافات میں واقع داچھی گام نیشنل پارک کا دورہ کرایا جائے گا۔
بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ سرینگر میں جی ٹوئنٹی کے سیاحت سے متعلق ورکنگ گروپ کےاس اجلاس سے علاقے میں سیاحت کو فروغ ملے گا جب کہ مقامی دست کاریوں کی جی ٹوئنٹی ممالک کے لئے برآمدات میں اضافہ ہوگا۔
پاکستان نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں جی ٹوئنٹی ممالک کے اجلاس کی مخالفت کی ہے۔
پاکستان کا مؤقف ہے کہ جمو ں و کشمیر متنازع علاقہ ہےاوراس علاقے میں اس طرح کے اجلاسوں کا انعقادعالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری آج اسلام آباد کے زیرِ انتظام کشمیر کا دورہ کر رہے ہیں۔
مقامی میڈیا کے مطابق وہ کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے بھی خطاب کریں گے۔ وہ ایک دن قبل کشمیر پہنچے تھے جہاں مقامی میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ اجلاس بین الاقوامی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔اور یہ کہ اجلاس کا مقصد دنیا کو یہ بتانا ہے کہ کشمیر میں سب معمول کے مطابق ہے۔
واضح رہے کہ بھارتی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری کو ختم کردیا تھا اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے انہیں براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقے بنایا تھا جسے متنازع ریاست کو ملک میں ضم کرنے کی جانب ایک بڑا اور اہم قدم خیال کیا جاتا ہے۔
کشمیر کا کچھ حصہ پاکستان کے کنٹرول میں جسے اسلام آباد ’آزاد کشمیر‘ کا نام دیتا ہے جب کہ بھارت نئی دہلی کے زیرِ کنٹرول کشمیر کو مرکز کے ماتحت علاقہ قرار دیتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
دونوں ممالک کشمیر کو اپنا علاقہ قرار دیتے ہیں اور 1947 کے بعد سے اس تنازع کی وجہ سے پاکستان اور بھارت میں جنگیں بھی ہوئی ہیں۔
نئی دہلی کا مؤقف رہا ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے جب کہ وہ اس تنازع کے حل کے لیے کسی تیسرے فریق یا ثالث کے کردار کی مخالفت کرتا رہا ہے۔
پاکستان کشمیر کے تنازع کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیتا رہا ہے۔