دنیا کے اہم صنعتی ممالک اور خلیجی ریاستوں نے اقوام متحدہ کے امدادی اداروں کو جنگ عظیم دوم کے بعد سے پناہ گزینوں کے سب سے بڑے بحران سے نمٹنے کے لیے 1.8 ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔
اس بات کا اعلان منگل کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر جی سیون کے ایک اجلاس کے بعد کیا گیا۔ اس اجلاس میں خلیجی ریاستوں کے رہنما اور کچھ یورپی ملکوں کے رہنما بھی شامل تھے جہاں سب سے زیادہ بے گھر پناہ گزین داخل ہو رہے ہیں۔
جرمنی کے وزیر خارجہ فرینک والٹر سٹائن مائیر نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ یہ امداد اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین اور عالمی ادارہ خوراک کو دی جائے گی۔ یہ واضح نہیں کہ 1.8 ارب ڈالر میں اس پہلے سے کیے گئے امداد کے وعدے شامل ہیں یا نہیں۔
اس کے علاوہ جاپان نے شام اور عراق سے آنے والے پناہ گزینوں کی مدد کے لیے 80 کروڑ 10 لاکھ ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے جبکہ مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں امن کے قیام کے لیے مزید 70 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا ہے۔
بدھ کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون اس مسئلے پر دو اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں شریک ہوں گے۔ پہلے وہ شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں جنگوں کے خاتمے کے لیے سلامتی کونسل میں بحث میں شریک ہوں گے۔ بعد ازاں وہ یورپ میں پناہ گزینوں کی بڑی تعداد میں آمد پر عالمی اقدامات پر بات چیت کے لیے ایک اجلاس کی صدارت کریں گے۔
اقوام متحدہ کے حکام کا کہنا ہے کہ جنگ کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے چھ کروڑ افراد کی مدد کے لیے وہ اپنی استعداد سے بہت زیادہ کر کام کر رہی ہے۔ یہ جنگ عظیم دوم کے بعد بے گھر ہونے والوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین ’یو این ایچ سی آر‘ نے منگل کو کہا کہ پانچ لاکھ سے زائد تارکین وطن بحیرہ روم کا خطرناک سفر کر کے نئی زندگی کا خواب پانے کے لیے یورپ پہنچ چکے ہیں۔
’یو این ایچ سی آر‘ نے منگل کو اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ رواں سال جنوری سے اب تک پانچ لاکھ 15 ہزار افراد مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ کے جنگ اور غربت کے شکار ملکوں سے فرار ہو کر بہتر مستقبل کی تلاش میں یورپ آچکے ہیں۔
عالمی ادارے کے مطابق یورپ میں پناہ کے متلاشی ان مہاجرین میں سے تین لاکھ 83 ہزار یونان جب کہ ایک لاکھ 29 ہزار اٹلی کے ساحلوں پر پہنچے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق خستہ حال اور گنجائش سے زائد مسافروں سے لدی کشتیوں کے ذریعے بحیرۂ روم عبور کرنے کی کوشش کے دوران رواں سال اب تک تین ہزار سے زائد پناہ گزین ہلاک بھی ہوئے ہیں۔
رواں سال اب تک یورپ پہنچنے والے پناہ گزینوں میں سے نصف سے زائد تعداد کا تعلق شام سے ہے جو وہاں گزشتہ ساڑھے چار سال سے جاری خانہ جنگی کے باعث پناہ اور بہتر مستقبل کی تلاش میں یورپ کے آسودہ اور ترقی یافتہ ملکوں کا رخ کر رہے ہیں۔