امریکہ نے بھارت کو 'جی سیون' اجلاس میں شرکت کی دعوت کیوں دی؟

  • قمر عباس جعفری

فائل

بھارت کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکہ کےصدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹیلی فونک گفتگو میں وزیر اعظم نریندر مودی کو جی سیون ملکوں کے آئندہ اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔

تاہم، وہائٹ ہاؤس نے وزیراعظم نریندر مودی سے صدر ٹرمپ کی ٹیلیفون پر ہونے والی گفتگو کے بارے میں جاری بیان میں واضح نہیں کیا کہ بھارت کو بھی اس اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔

وائٹ ہاوس کے جاری کردہ بیان میں یہ ذکر تو ہے کہ جی سیون اجلاس کرونا وائرس کی صورت حال اور علاقائی سیکیورٹی کے مسائل پر گفتگو ہوئی۔ لیکن بھارت کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دئے جانے سے متعلق کوئی بات نہیں کہی گئی۔

خیال رہے کہ صدر ٹرمپ نے جب جی سیون اجلاس م از کم ستمبر تک ملتوی کرنے کا اعلان کیا تھا تو اس وقت کہا تھا کہ اب یہ ملکوں کا ایک ازکار رفتہ گروپ بن کر رہ گیا ہے اور یہ کہ وہ اب بھارت، روس، آسٹریلیا اور جنوبی کوریا کو اس میں شرکت کی دعوت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

چین نے نئے ملکوں کو گروپ میں شامل کرنے کے منصوبے پر شدید رد عمل ظاہر کیا ہے، اور اطلاعات کے مطابق، جب چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ چین کے خلاف دائرہ تنگ کرنے کی کوئی بھی کوشش ناکام اور غیر مقبول ہو گی۔

مذکورہ ملکوں کو جی سیون گروپ میں شامل کرنے کے مقاصد کیا ہیں؟ آیا کرونا وائرس کے بعد کے دور میں عالمی مالیاتی نظام پر اس کے کوئی اثرات مرتب ہوں گے؟ اس بارے میں ماہرین کی آرا مختلف ہیں۔

بھارت کے انسٹیٹیوٹ آف ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ انالیس کے سینئر فیلو ڈاکٹر اشوک بہوریا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حقیقت یہ ہےکہ اس وقت بھارت دنیا میں تیسرے یا چوتھے نمبر کی معیشت بن چکا ہے اور اس کی اس حیثیت کو تسلیم نہ کرنا حقیقت سے اجتناب برتنا ہے۔

انھوں نے کہا کہ بھارت کو جی سیون ملکوں کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دیکر، بھارت کی اس حیثیت کو تسلیم کیا گیا ہے اور بھارت بتدریج معاشی میدان میں پیش رفت کر رہا ہے۔

چین کے رد عمل کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ چین کے رد عمل سے زمینی حقائق تبدیل نہیں ہونگے اور بھارت کی پوزیشن پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ انہوں نے بھارت کو مدعو کئے جانے کے فیصلے کی تعریف کی اور کہا کہ صدر ٹرمپ کی سوچ غیر روایتی اور دانشمندانہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت میں چین کے لئے کوئی زیادہ معاندانہ جذبات بھی نہیں پائے جاتے اور جو کچھ لداخ میں ہو رہا ہے اس کے بارے میں بھی بھارت کی سیاسی قیادت کچھ زیادہ نہیں کہہ رہی ہے، کیونکہ بھارت میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ عالمی معاملات کے سلسلے میں بھارت اور چین کے خیالات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

متحدہ عرب امارات میں ایک امریکن یونیورسٹی بزنس اسکول سے وابستہ ماہر معاشیات ڈاکٹر ظفر معین نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت چین دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی قوت بن کر ابھرا ہے اور یہ صورت حال امریکہ اور مغرب کے لئے زیادہ خوشگوار نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کوشش یہ ہو رہی ہے کہ چین کے خلاف کسی قوت کو سامنے لایا جائے اور اس کے لئے بھارت پر انحصار کیا جارہا ہے۔ لیکن، لگتا ایسا ہے کہ اسے جی سیون میں لانے سے نہ تو دنیا کے مالیاتی نظام پر کوئی فرق پڑے گا نہ چین کی راہ روکی جاسکے گی، کیونکہ بھارت کی اقتصادی قوت اتنی نہیں ہے کہ وہ چین کے مقابلے پر کھڑا ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ خود امریکہ بھی چین کے ساتھ اقتصادی تنازعے کی صورت میں فائدے میں نہیں رہے گا۔ اس لئے کہ اگر امریکی کمپنیاں چین سے نکل آتی ہیں تو زیادہ نقصان امریکہ کا ہو گا۔

چین کے رد عمل کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کا رد عمل فطری ہے۔ اپنی قوت کے پیش نظر وہ عالمی معاملات میں غیر متعلق ہونے کے لئے کبھی تیار نہیں ہو گا۔

شکاگو یونیورسٹی میں مالیات اور مارکیٹنگ کے پروفیسر ڈاکٹر ظفر بخاری نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے ساتھ آسٹریلیا اور جنوبی کوریا کو جی سیون میں لانے کی کوشش کا مقصد چین کو یہ تاثر دینا ہے کہ بحر الکاہل کے خطے میں اس کے خلاف گروپ بن سکتا ہے اور اس کے گرد گھیرا تنگ ہو سکتا ہے۔

انہوں نے بھارت کو شرکت کی دعوت کے بارے میں کہا کہ یہ درست ہے کہ بھارت دنیا کی تیسری یا چوتھی بڑی معیشت ہے۔ لیکن، اس کی 70 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے اور فی کس سالانہ آمدنی کے لحاظ سے بھی وہ بہت پیچھے ہے۔ اس لئے جی سیون میں اس کے آنے یا نہ آنے سے عالمی مالیاتی نظام پر کوئی اثر پڑے گا نہ کرونا کے بعد دنیا جس معاشی صورت حال سے دو چار ہونے والی ہے اس کے حوالے سے اس کا کوئی بڑا کردار نظر آتا ہے۔