بلوچستان کے ماہی گیر وں کا کہنا ہے کہ گوادر بندرگاہ کی تعمیر سے اُن کی جھینگے کی نرسر یاں تباہ ہو گئیں ہیں اور اب اگر ساحل کے ساتھ ایکسپریس ہائی وے کی تعمیر میں اُن کے مفادات کا تحفظ نہ کیا گیا تو گوادر کی لاکھوں پر مشتمل آبادی دو وقت کی روٹی کی محتاج ہو جائے گی۔
گوادر فش انڈسٹری کے صدر ناگومان عبدل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گوادر کی ایک لاکھ سے زائد اور آس پاس کی بستیوں کے لوگوں کی روزی کا واحد ذریعہ سمندر سے مچھلیاں پکڑنا اور انہیں فروخت کرنا ہے۔ لیکن اب وفاقی حکومت نے گوادر بندرگاہ کو کوسٹل ہائی وے سے ملانے کے لئے سمندر کے ساتھ بیس فٹ چوڑی اور زمین سے لگ بھگ چالیس فٹ اونچی سڑک بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے نیچے ماہی گیروں کی آمد و رفت کے لیے راستے نہیں رکھے جا رہے، جہاں سے وہ سمندر میں آ جا سکیں، اپنی کشتیاں منتقل کر سکیں اور مچھلی کو مارکیٹ میں پہنچا سکیں۔
انہوں نے کہا کہ گوادر بندرگاہ کی تعمیر کے وقت بندرگاہ سے گوادر شہر تک بندرگاہ کی طرف سمندر کے بڑھتے ہوئے پانی کو روکنے کے لئے پتھر ڈال کر ایک دیوار تعمیر کی گئی، جس سے سمندر میں موجود مچھلیوں کی افزائش کی قدرتی نرسریاں ختم ہو گئیں۔ اب کئی کلومیٹر طویل ایکسپریس وے سے بچی کچی نرسریاں بھی ختم ہو جائیں گی۔ اس کے علاوہ سمندر کا پانی خود بھی رُخ تبدیل کرتا رہتا ہے۔ مچھلیاں ختم ہونے سے ہمارا کاروبار بالکل ختم ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ بندرگاہ کی تعمیر کا اب تک گوادر کے لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوابلکہ اُلٹا ہماری فش انڈسٹری تباہ ہوگئی ہے۔
ناگومان کا کہنا تھا کہ بندرگاہ میں گوادر کی ایک فیصد آبادی کو بھی روزگار فراہم نہیں کیا گیا۔ جن لوگوں کو ملازمت دی گئی ہے وہ بھی چھوٹی چھوٹی پوسٹیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گوادر، جیونی، اورماڑہ اور ساڑھے سات سو کلومیٹر کی ساحلی پٹی پر آباد دوسری چھوٹی بستیوں کی لگ بھگ دو لاکھ سے زیادہ آبادی کا ذریعہ ماش ماہی گیری ہے۔ یہ ختم ہونے سے علاقے میں بے روزگاری کا مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔
ماہی گیروں کے ایک رہنما خداداد کا کہنا ہے کہ ماہی گیر ایکسپریس وے کی تعمیر کی مخالفت نہیں کر رہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ سمندر میں داخل ہونے کے لیے صرف چھ میٹر کا دروازہ رکھا گیا ہے۔ جب کہ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ دو سو فٹ کے تین دروازے تعمیر کیے جائیں تاکہ ماہی گیر ہنگامی صورت حال میں آسانی سے سمندر میں جا سکیں اور وہاں سے آ سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گوادر پورٹ کی تعمیر سے جھینگے کی 25 فی صد پیداوار اور ان کی قدرتی نرسریاں ختم ہو گئیں ہیں۔ اگر ہمیں متبادل روزگار فراہم نہیں کیا گیا تو ہمارے لیے زندگی گزارنا مشکل ہو جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ سیکورٹی وجوہات کی بنا پر اب غیر ملکی بڑے ٹرالوں کو گوادر آنے کی اجازت نہیں دی جا رہی جس سے گوادر کے ماہی گیروں کو تو فائدہ ہوا ہے لیکن یہ ٹرالے اب اورماڑہ، جیونی اور پسنی کے قریب کھلے سمندر میں مچھلیاں پکڑ رہے ہیں جسے سے وہاں کے مقامی ماہی گیروں کو نقصان ہو رہا ہے۔ ان پر پابندی لگائی جانی چاہیے اور مچھلیاں اسٹور کرنے کے لیے کولڈ اسٹوریج اور جدید کولڈ اسٹوریج گاڑیاں فراہم کی جانی چاہیئں۔
کوئٹہ میں محکمہ فشریز کے اعلیٰ افسران نے ماہی گیروں کے مطالبات کو جائز قرار دیتے ہوئے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وزیر اعلیٰ جام کمال خان نے گزشتہ دنوں گوادر کے دورے کے دوران ماہی گیروں کے ساتھ ملاقات میں یہ مسائل وفاقی حکومت کے ساتھ اُٹھانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
گوادر کی آبادی تقریباً ایک لاکھ ہے۔ ان کے روزگار کا براہ راست یا بالواسطہ تعلق ماہی گیری سے جڑا ہے۔ ماہی گیروں اور دیگر کاروباری افراد نے اپنے مطالبے تسلیم نہ کیے جانے کی صورت میں یکم مارچ سے گوادر میں غیر معینہ مدت کے لیے ہڑتالی کیمپ لگانے کا اعلان کیا ہے۔