غزہ پر گزشتہ 14 روز سے جاری اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد ساڑھےپانچ سو سے زائد ہوگئی ہے جب کہ 'حماس' نے ایک بار پھر اسرائیل کے ساتھ غیر مشروط جنگ بندی کا امکان مسترد کردیا ہے۔
خطے میں جاری تشدد اور کشیدگی کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی سفارتی کوششیں بھی جاری ہیں جن کے سلسلے میں امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری اور اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون مصر پہنچ گئے ہیں۔
نشریاتی ادارے 'سی بی ایس نیوز' کے مطابق جان کیری نے غزہ میں پیدا ہونے والی بحرانی صورتِ حال سے نبٹنے کے لیے چار کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے۔
جان کیری اور بان کی مون پیر کی رات قاہرہ میں ملاقات کریں گے جس کے بعد منگل کو دونوں رہنما مصری حکام سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کریں گے۔
ان ملاقاتوں میں اسرائیل اور 'حماس' کے درمیان جنگ بندی کے مصر کی جانب سے تجویز کردہ منصوبے کو مزید قابلِ عمل بنانے پر غور کیا جائے گا۔
گزشتہ ہفتے مصر کی جانب سے پیش کیے جانے والے اس منصوبے کو اسرائیل نے قبول کرلیا تھا لیکن 'حماس' نے اسے ماننے سے انکار کردیا تھا۔
'حماس' کے رہنماؤں نے الزام عائد کیا تھا کہ مصر کے تجویز کردہ جنگ بندی کے معاہدے میں فلسطینیوں کے تمام مطالبات نظر انداز کردیے گئے تھے۔
امریکی خبر رساں ایجنسی 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق اسرائیلی حملوں کےنتیجے میں پیر کو مسلسل دوسرے روز بھی غزہ میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
تازہ ہلاکتوں کے بعد آٹھ جولائی سے غزہ پر جاری اسرائیلی بمباری میں مرنے والے فلسطینیوں کی تعداد 566 ہوگئی ہے۔
فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں لگ بھگ ساڑھے تین ہزار افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جنہیں اسرائیلی محاصرے کا شکار غزہ کے اسپتال طبی امداد فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔
پیر کو غزہ کا ایک اہم اسپتال بھی اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنا۔ فلسطینی حکام کے مطابق اسرائیلی ٹینک سے فائر کیے جانے والے گولے 'الاقصیٰ اسپتال' کی تیسری منزل پر گرے جن سے اسپتال کے 'آپریشن تھیٹر' اور 'انتہائی نگہداشت کا وارڈ' تباہ ہوگیا۔
حملے میں چار افراد ہلاک اور 70 زخمی ہوگئے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق اسپتال کے نزدیک ہی 'حماس' کا ایک "اسلحہ خانہ" موجود تھا جسے بمباری کے نتیجے میں "کامیابی سے نشانہ بنا کر تباہ کردیا گیا"۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ پیر کو غزہ پر حکمران مزاحمتی تنظیم 'حماس' کے جنگجووں کے ساتھ جھڑپ میں اس کے مزید سات فوجی اہلکار ہلاک ہوگئے ہیں۔
فوج کی جانب سے پیر کو جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ چار فوجی اہلکار 'حماس' کے ا ن جنگجووں کے حملے میں ہلاک ہوئے جو ایک سرنگ کے ذریعے غزہ سے اسرائیلی علاقے میں داخل ہوگئے تھے۔
بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسرائیلی علاقے میں در اندازی کرنے والے جنگجووں کے خلاف اسرائیلی طیاروں نےفوری کارروائی کی جس میں 10 حملہ آور مارے گئے۔
بیان کے مطابق دیگر تین فوجی غزہ کے مختلف علاقوں میں فلسطینی جنگجووں کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں مارے گئے۔
پیر کو ہونے والی ہلاکتوں کے بعد گزشتہ تین روز کے دوران مرنے والے اسرائیلی فوجیوں کی تعداد 25 ہوگئی ہے۔ اسرائیلی شہروں پر 'حماس' کے راکٹ حملوں میں اب تک دو اسرائیلی شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
اسرائیل کے شدید حملوں کے باوجود 'حماس' نے اسرائیل اور مصر کی جانب سے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے اور دیگر مطالبات ماننے کی یقین دہانی کرانے تک لڑائی جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
فلسطینی حکومت کے سابق وزیرِاعظم اور غزہ میں 'حماس' کے سربراہ اسمعیل ہانیہ نے نامعلوم مقام سے اپنے بیان میں کہا ہے کہ دنیا کو سمجھنا ہوگا کہ غزہ کے لوگ اسرائیلی محاصرے کو اپنے خون سے ختم کرنے کا تہیہ کرچکے ہیں۔
پیر کو 'حماس' کے ٹی وی پر نشر کیے جانے والے اپنے خطاب میں حماس کے رہنما نے کہا کہ ان کی لڑائی کا مقصد غزہ کی پٹی کا سات سال سے جاری محاصرہ ختم کرانا ہے اور غزہ میں بسنے والے 17 لاکھ فلسطینی اس مطالبے میں یک آواز ہیں۔
اسمعیل ہانیہ نے کہا کہ فلسطینی مزاحمت کار یہ ثابت کریں گے کہ "غزہ ناقابلِ تسخیر اور حملہ آوروں کا قبرستان" ہے۔
دوسری جانب امریکہ کے صدر ربراک اوباما نے غزہ میں عام شہریوں کی ہلاکت میں اضافے پر "تشویش" ظاہر کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے کردار ادا کرے۔
پیر کو 'وہائٹ ہاؤس' میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ انہیں اسرائیل اور 'حماس' کے درمیان جاری لڑائی میں دونوں جانب کے عام شہریوں کی بڑی تعداد میں ہلاکتوں پر "گہری تشویش" ہے۔
تاہم امریکی صدر نے واضح کیا کہ اسرائیل کو 'حماس' کے راکٹ حملوں سے بچاؤ کے لیے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔