غزہ: کم عمری کی شادی سے اجتناب کی کامیاب مہم

فلسطینی علاقے ویسٹ بینک میں ہونے والی ایک شادی میں دلہا اور دلہن۔ فائل فوٹو

غزہ سے تعلق رکھنے والے 30 افراد پر مشتمل کارکنان کے ایک گروپ نے 18 برس سے کم عمر کی لڑکیوں کی شادیاں نہ کرنے کی کامیاب مہم چلائی ہے۔ ان بچیوں کا تعلق 50 مختلف خاندانوں سے تھا۔

اس ضمن میں، اقوام متحدہ کے صنفی مساوات کے ادارے، 'یو این ومین' کی حمایت سے تربیت کے ایک پروگرام کا اہتمام کیا گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق، ایک سرگرم کارکن، موسیٰ ابو تاہمہ نے غزہ کی پٹی پر واقع ایک سرحدی قصبے میں، خان یونس کے قدامت پسند مشرقی دیہات میں 16 برس کی ایک لڑکی کے والد کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ اپنی بچی کی شادی کو منسوخ کریں اور انھیں تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دی جائے۔

سال 2017 کے دوران، غزہ میں تقریباً 21 فی صد شادیاں ایسی تھیں جن میں لڑکی کی عمر 18 برس سے کم تھی۔

صنفی بنیاد پر برتی جانے والی زیادتی کے خلاف سالانہ 16 دن کی مہم سے قبل، جس کا 15 نومبر سے آغاز ہو گا، یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو گئی ہے کہ سچائی پر مبنی کوششیں ہمیشہ بارآور ثابت ہوتی ہیں، اور یہ کہ ایسی کاوش سے روایتی طور طریقے بدلے جا سکتے ہیں اور صنفی مساوات کو فروغ حاصل ہو سکتا ہے۔

یہ سالانہ مہم 10 دسمبر تک جاری رہے گی۔

طبی ماہرین بتاتے ہیں کہ کم عمری کی شادی المیے کے مترادف ہے جس سے ماں اور نو زائیدہ بچے کی زندگی کو کئی قسم کے خطرات لاحق ہوتے ہیں، جس کی حوصلہ شکنی مروجہ قانونی لحاظ سے بھی لازم ہے۔